Wednesday, October 4, 2017

مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی کچھوچھوی -ایک مختصرتعارف

تحریر:- بشارت علی صدیقی حیدرآبادی، حال مقیم جدہ ،حجاز مقدس
ترتیب وپیش کش مع حذف واضافہ:- عبد الخبیر اشرفی مصباحی ، دار العلوم منظر اسلام التفات گنج امبیڈکر نگر پو۔پی۔


نام ونسب : آپ کااسم گرامی سید اشرف ابن سلطان سید محمد ابراہیم نور بخشی ابن سلطان سید عماد الدین شاہ نور بخشی سمنانی ہے-سلسلہ نسب 25 واسطوں سے سید اسماعیل اعرج رضی اللہ عنہ کے ذریعے رسول اللہﷺتک پہنچتا ہے۔
والدہ ماجدہ حضرت بی بی خدیجہ، اولاد شیخ احمد یسوی سے تھیں،ان کانسب بی بی نصیبہ ہمشیرہ غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔جو حضرت شیخ احمد یسوی (486 -562ھ ؍1093-1166ء )کے خاندان سے تھیں۔
القاب وآداب: ’’غوث العالم ‘‘منصب غوثیت پر770ھ؍1369ء بمقام گلبرگہ شریف، دکن میں فائزہوئے۔’’محبوب ربانی‘‘ کاخطاب:782ھ؍1381ء بمقام روح آباد کچھوچھہ شریف ملا۔’’جہاں گیر‘‘ یہ لقب پنڈوہ شریف میں تکمیل تعلیم معرفت وسلوک کے بعد ، مخدوم العالم شیخ عمرعلاء الحق پنڈوی کی طرف سے عطاہوا۔دیگر القابات میں’’اوحد الدین‘‘ اور ’’محبوب یزدانی‘‘ معروف ہیں۔
ولادت باسعادت: 708ھ؍1309ء - دوسرے قول کے مطابق 712ھ؍1313ء کوہوئی۔
تکمیل تعلیم وتخت نشینی: حفظ قرآن و قراء ت عشرہ کی تکمیل سے نہایت قلیل عمر- بعمر 7سال یعنی  715ھ؍1315ء کو فارغ ہوگئے-
اورجملہ مروجہ علوم و فنون کی تکمیل سے بعمر 14سال یعنی  722ھ؍1322ء کو فارغ ہوئے-تکمیل تعلیم کے بعد:723ھ کوسمنان کے تخت نشیں بنائے گئے؛ مدت سلطنت 10سال رہی، بعمر 25سال سلطنت سے دست بردار ہوگئے-
بیعت وخلافت: سلطنت سمنان سے دست برادری کے بعد ، حضرت خضر علیہ السلام کی رہنمائی میں عازم ہندوستان ہوئے۔یہاں مخدوم العالم شیخ عمر علاء الحق والدین گنج نبات لاہوری ثم پنڈوی بنگالی ان کاانتظارکررہے تھے۔سمنان سے پنڈوہ شریف بنگال ہندوستان کا سفر 2 سال میں مکمل ہوا۔اس سفر کے دوران حضرت مخدوم سید جلال الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت علیہ الرحمہ سے مقام اوچ میں ملاقات ہوئی ۔ وہاں چند ایام آپ نے قیام فرمایاپھرانھوں نے بے شمار فیوض وبرکات سے نوازتے ہوئے جلد ازجلد پنڈوہ شریف پہنچنے کی وصیت فرمائی۔اوچ سے براہ دہلی پنڈوہ شریف پہنچے،یہاں بدست حضرت مخدوم العالم شیخ عمر علاء الحق والدین چشتی گنج نبات لاہوری ثم پنڈوی مرید ہوئے ۔ساتھ ہی ساتھ خلافت سے بھی نواز دئے گئے،یہ 735ھ؍1335ء کا واقعہ تھا۔
پہلا قیام پنڈوہ شریف: پنڈوہ شریف میں پہلا قیام735ھ-741ھ مطابق1335-1341ء ؛ 6سال رہا،-742ھ؍1342ء کو پنڈوہ شریف سے جون پور کے لیے روانہ ہوئے۔
جون پور میں پہلی بار آمداور بلاد شرقیہ کا سفر: حضرت مخدوم سید اشرف جہاں گیرسمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ کو اپنے پیر ومرشد کی طرف سے جون پور کی ولایت سپرد ہوئی تھی,742ھ؍1342ء کوسلطنت تغلقیہ کے عہد میں آپ پنڈوہ شریف سے جون پور کے لیے روانہ ہوئے۔ یہاں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد بلاد شرقیہ و ممالک اسلامیہ کی سیر فرمائی۔ جزیرۃ العرب، مصر، شام، عراق، اور ترکستان کے مختلف علاقوں اور شہروں کا سفر فرمایا اور وہاں کے مشہور علما، مشائخین اور اولیا اللہ سے ملاقاتیں کیں اور فیوض و برکات حاصل کیے۔ 
اسی سفر کے دوران 750ھ؍1350ء میں غوث العالم کے مشہور مرید و خلیفہ اور لطائف اشرفی کے مرتب و جامع حضرت حاجی نظام یمنی داخل سلسلہ ہوئے اور آخری دم تک حضرت مخدوم سید اشرف سمنانی کچھوچھوی کے سفر و حضر میں ساتھ رہے۔بلاد شرقیہ کے سفرسے 758ھ؍1357ء کوہندوستان میںواپسی ہوئی،ان ممالک شرقیہ کی پہلی سیاحت کا زمانہ 15 سال قیاس کیا گیا ہے۔
دوسراقیام پنڈوہ وسفرحرمین طیبین: بلاد شرقیہ کی واپسی کے بعد حضرت مخدوم سید اشرف جہاں گیرسمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے دوسری بار سفرِ پنڈوہ شریف اختیار فرمایا اور چار سال تک اپنے پیر و مرشد کے فیوض و برکات حاصل کرتے رہے، پنڈوہ شریف سے واپسی کے بعد حرمین شریفین کی زیارت کا دوبارہ قصد کیا۔ اسی سفر میں آپ اپنی خالہ زاد بہن سے ملاقات کے لیے جیلان تشریف لے گئے اور اپنے بھانجے نورالعین حضرت سید عبدالرزاق جیلانی ابن حضرت سید عبدالغفور جیلانی کو اپنی فرزندگی میں قبول فرمایا۔ یہ 764ھ؍1363-1364ء کا واقعہ ہے۔حرمین شریفین اورممالک شرقیہ کی یہ دوسری سیاحت غالباً 10 سال رہی ہو گی۔768ھ؍1367ء کو حضرت مخدوم سید اشرف جہاں گیرسمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ دوبارہ ہندوستان واپس تشریف لائے۔
حرمین شریفین اور بلاد شرقیہ سے واپسی کے بعد حضرت مخدوم سید اشرف جہاں گیرسمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے مختلف مقامات ہند کاسفر فرمایا اور اسلام کی خوب نشرواشاعت فرمائی، متعدد بزرگان دین سے آپ نے اکتساب فیض کیا اور کثیر مخلوق نے آپ سے برکت پائی ۔جن میں علماومشایخ کا ایک بہت بڑاطبقہ بھی شامل ہے۔
حضرت مخدوم جہاں کی نمازجنازہ کی امامت اور پنڈوہ شریف کا تیسراسفر: سال 782ھ؍1381ء کوحضرت مخدوم سید اشرف جہاں گیرسمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ کو بمقام روح آباد کچھوچھہ شریف محبوب ربانی کا خطاب ہوااور اسی سال آپ نے تیسری بار اپنے پیر و مرشد کی نیاز حاصل کرنے کی غرض سے پنڈوہ شریف کا سفر کیا۔ جب آپ قصبہ منیر شریف پہنچے تو مخدوم جہاںحضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کا وصال ہو چکا تھا۔ حضرت مخدوم سید اشرف جہاں گیرسمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے،حضرت مخدوم جہاں کی وصیت کے مطابق نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت شیخ کے فیوض روحانی سے مالا مال ہو کر پنڈوہ شریف کی جانب تشریف لے گئے۔اس بار پنڈوہ شریف میں قیام کی مدت کتنے سال رہی؟ اس کا اندازہ لگاپانا مشکل ہے۔
پنڈوہ شریف میں آخری بار حاضری: مخدوم سید اشرف جہاں گیرسمنانی کچھوچھوی ،اپنے پیر و مرشدمخدوم العالم حضرت شیخ عمرعلاء الحق والدین چشتی گنج نبات کے وصال کے بعدبوقت جانشینی پیر زادہ حضرت شیخ احمد معروف بہ نور قطب عالم پنڈوی علیہما الرحمہ پنڈوہ شریف تشریف لے گئے اور 801ھ-803ھ؍1399-1401ء کے دوران آپ نے وہاں قیام فرمایا- اس قیام کے دوران ایک عجیب وغریب کرامت آپ کی ذات سے یہ صادر ہوئی کہ آپ نے اپنے پیرزادہ کوکہاکہ: پہاڑکو اپنے جگہ سے جنبش کرنے کہئے!آپ کاجملہ ابھی پورابھی نہیں ہواتھاکہ پہاڑ نے جنبش کرنا شروع کردیا۔
جونپور میں دوسری بار آمد: حضرت مخدوم سید اشرف جہاںگیر سمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے جب دوسری بار جون پور قدم رنجا فرمایا ، اس وقت جون پورمیںسلطان ابراہیم شرقی کی حکومت تھی۔یہ غالباً :805-804ھ؍1402-1403ء کی بات تھی۔ سلطان ابراہیم شرقی بڑاسچادین داروپابند شریعت بادشاہ تھا، اس کے عہد میں تمام عدالتیں شرعی طریق کارکی پابند تھیں، تمام سلطنت میں جگہ جگہ قاضی مقرر تھے ہرعلاقے اور شہر کا قاضی دار الحکومت جون پورکے قاضی القضاۃ کے ماتحت ہوتاتھا، سلطان ابراہیم کے ممتاز ومعتمد علیہ قاضیوں میں قاضی شہاب الدین دولت آبادی کا شمارہوتاتھا۔قاضی شہاب الدین دولت آبادی حضرت مخدوم سید اشرف جہاں گیرسمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ کے بڑے معتقد اورخلیفہ تھے۔لاینحل مسائل میں وہ حضرت مخدوم کی طرف رجوع کرتے تھے۔
مخدوم سید اشرف جہاں گیرسمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے اندرون ملک جون پور، ظفرآباد، محمدآباد گہنہ،کرمینی، بھڈوڈ، اجودھیا، سدھور، جائس، لکھنو،کنتور، رودولی،بہارشریف، گل برگہ،دہلی، اجمیر، پاک پٹن ، سرندیپ اور گجرات وغیرہابے شمار جگہوں کا تبلیغی دورہ فرمایا۔ آپ تبلیغ کے لیے جہاں بھی جاتے وہاں نہ صرف مسلموں کو بلکہ غیر مسلموں کو بھی اپنا گرویدہ بنالیتے تھے ۔آپ نے ہزاروں غیر مسلموں کو مشرف بااسلام کیاتھا۔
805ھ مطابق1403ء کو جون پور سے واپسی کے بعد آپ کچھوچھہ مقدسہ ہی میں رہے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو سوسال سے زائد عمر عطافرمائی تھی۔ عمر کابیشترحصہ آپ نے اسلام کی نشرواشاعت کے لیے پوری دنیاکاسفرکرتے ہوئے گذار دیا۔
تعمیر آستانہ اشرفیہ: حضرت مخدوم سید اشرف جہاں گیرسمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ کو ان کے پیر ومرشد نے ان کی آخری آرام گاہ کی زیارت بکشف کرادی تھی ، جہاںحضرت مخدوم علیہ الرحمہ نے سال793ھ؍1391ء کو نہایت عالی شان خانقاہ وآستانہ تعمیر کرائی، اس آستانہ مبارک کا مادہ تاریخ’’ عرش اکبر‘‘ ہے۔
سال وصال:28 محرم الحرام، 808ھ؍1405ء 1406ء بمقام روح آباد، کچھوچھہ مقدسہ۔ بعض روایتوں میں تاریخ وصال محرم الحرام 825ھ؍1421-1422ء بتائی گئی ہے۔
بعض محققین کے مطابق حضرت مخدوم اشرف جہاں گیرسمنانی کچھوچھوی کی ولادت 712ھ؍1313ء میں ہوئی، آپ نے 120 سال عمر پائی اور 832ھ؍1429ء میں وصال فرمایا۔ اور یہی راجح بھی ہے۔
حضرت مخدوم آفاق عبدالرزاق نورالعین جیلانی اشرفی کچھوچھوی-(750 -869ھ؍1350-1465ء یا752- 872ھ ؍1352 -1468ء )حضرت مخدوم سید اشرف جہاں گیرسمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ کے جانشیں ہیں۔
خلافتیں: حضرت مخدوم سید اشرف جہاں گیرسمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ کو درج ذیل سلاسل میں خلافت واجازت حاصل تھی:
(۱) سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ سراجیہ:شیخ علاء الحق والدین گنج نبات پنڈوی-(۲)سلسلہ عالیہ قادریہ جیلانیہ: حضرت سید عبدالغفور حسن جیلانی (والد گرامی، حضرت نورالعین)-(۳)سلسلہ عالیہ قادریہ جیلانیہ بخاریہ:مخدوم جہانیاں جہاںگشت سید جلال الدین بخاری قادری-(۴)سلسلہ عالیہ قادریہ سہروردیہ جلالیہ:مخدوم جہانیاں جہاں گشت-(۵)سلسلہ عالیہ حسنیہ حسینیہ:مخدوم جہانیاں جہاں گشت-(۶)سلسلہ کبرویہ:حضرت شیخ علاء الدولہ سمنانی اور مخدوم جہاں شیخ شرف الدین یحییٰ منیری-(۷)سلسلہ زاہدیہ:حضرت خواجہ بدرالدین بدر عالم زاہدی-(۸)سلسلہ شطاریہ:حضرت حاجی محمد بن عارف القادری-(۹)سلسلہ نقشبندیہ:حضرت خواجہ سید بہاء الدین نقشبند-(۱۰)سلسلہ مداریہ:حضرت خواجہ سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار،مکن پور-(۱۱)سلسلہ تابعیہ خضریہ:حضرت خضر علیہ السلام-(۱۲)سلسلہ تابعیہ رضائیہ:حضرت شیخ ابوالرضا حاجی بابا رتن ہندی۔نیز حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت قدس سرہ نے اپنی تمام خلافتیں عطا فرمائی تھیں۔
علمی آثار: حضرت مخدوم سید اشرف جہاںگیر سمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ کثیرالتصانیف بزرگ تھے: چند مشہور کتابوں کے نام درج ذیل ہیں:
(۱) ترجمہ قرآن بزبان فارسی(727ھ؍1327ء : قرآن پاک کا پہلا فارسی ترجمہ،جو خود مخدوم اشرف کا لکھا ہوا آج بھی کچھوچھہ شریف میں مختار اشرف لائبریری میں موجود ہے، اسی فارسی ترجمے کا اردو ترجمہ علامہ مولانا سید مختار اشرفی نے کراچی سے اظہار البیان کے نام سے شائع کیا۔
(۲) رسالہ تصوف و اخلاق:اردو زبان و نثر میں پہلی کتاب ہے۔ اس سے قبل کوئی کتاب اردو نثر میں نہیں لکھی گئی تھی۔ اسے سب سے پہلے میر نذر علی دردؔ کاکوروی نے دریافت کیا، یہ تحقیقی مقالہ بعنوان شمالی ہند اور اُردو سالنامہ یادگار رضا 1934ء میں شائع ہوا۔ پروفیسر حامد حسن قادری نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب:’’داستان تاریخ نثر اردو‘‘ میں اسے پورے طور پر سراہاہے-
(۳) رسالہ حجۃ الذاکرین-(۴)بشارۃ المریدین و رسالہ قبریہ-(۵)تحقیقات عشق-(۶)رسالہ غوثیہ-(۷)رسالہ مناقب اصحاب کاملین و مراتب خلفا راشدین(۸)ارشاد الاخوان(۹)ارشاد الاخوان(۱۰)فواید الاشرف(۱۱)اشرف الفوائد (۱۲)رسالہ بحث وحدت الوجود(۱۳)مکتوبات اشرفی:اس کے پہلے جامع حضرت نظام یمنی ہیں جنہوں نے 787ھ؍1386ء میں جمع کیا تھا، پھر حضرت سید عبدالرزاق نورالعین نے مزید مکتوبات کو شامل کرتے ہوئے 869ھ؍1465ء میں مکتوبات کو جمع فرمایا۔ مکتوبات اشرفی کو مولانا مفتی سیدممتاز اشرفی، کراچی نے دو جلدوں میں شائع فرمایا، جس میں پہلی جلد میں مقدمہ کے ساتھ 42 مکتوبات ہیں اور دوسری جلد میں 31 مکتوبات ہیں، مکتوبات کی کل تعداد 74 ہے۔
صفحات کی تنگی دامن گیر ہیں اس لیے ساری کتابوں کے نام اور ان کاتعارف یہاں پیش نہیں کیاجاسکتا۔

2 comments: