Thursday, November 17, 2022

رسولوں پر ایمان لانے کاحکم

 رسولوں پر ایمان لانے کاحکم 

قرآن کریم میں ہے:

    ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ-وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا۔‘‘

اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر ، اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اُتاری اور اُس کتاب پر جو پہلے اُتاری ،اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا۔

ایک دوسری آیت میں ہے:

’’لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ‘‘

اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو ، ہاں اصلی نیکی یہ کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر۔

نیز اللہ عزوجل فرماتاہے:

’’اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ-كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ۫-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۫-وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ، غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ‘‘

رسول ایمان لائےاس پر جو ان کے رب کے پاس سے ان پر اُترا ۔اور سب ایمان والوں نے مانا ، اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو، [اورسب نے یہی کہا] ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے ، اور[سب نے] عرض کی کہ ہم نے سنا اور مانا ، تیری معافی ہو اے رب ہمارے اور تیری ہی طرف پھرنا ہے۔

رسولوں پر ایمان لانے کا مطلب

دل سے تصدیق کرناکہ اللہ تعالیٰ نے ہرامت میں پیغمبر بھیجاجوانہیں اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کی دعوت دیتے تھے۔اوریہ یقین رکھے کہ تمام انبیا سچے ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں۔امانت داراور ہدایت یافتہ ہوتے ہیں۔انہوں نے اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے پیغام کو مکمل پہنچادیا۔اس میں انہوں نے کوئی کمی زیادتی اور تبدیلی نہیں کی اور نہ ہی کچھ چھپایا۔

رسولوں پر ایمان لانے کا اجر

وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ لَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ اُولٰٓىٕكَ سَوْفَ یُؤْتِیْهِمْ اُجُوْرَهُمْؕ

اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی پر ایمان میں فرق نہ کیا انہیں عنقریب اللہ ان کے ثواب دے گا۔

رسولوں پر ایمان لانے کے فوائد

اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بندوں پراس کی عنایت کا علم، بندوں کو طریقۂ حیات انبیاکی تعلیم سے ملی،لہذاان پر ایمان سے زندگی کے سلیقے سیکھنے کو ملیں گے۔

بندوں کی خیرخواہی کے کاموں میں حصہ لینے والوں کی عظمت ظاہرہوتی ہے۔انہوں نے بندوں کی خیرخواہی میں حصہ لیاتواللہ کریم نے ان کی محبت وعظمت بندوں کے دلوں میں ڈال دیا۔

سارے انبیاپر ایمان لانا ،نعمت الہی کا شکریہ اداکرناہے۔

اختلاف شرائع کے باوجود سارے انبیاپر ایمان لانے کا حکم ہمیں یہ بتاتاہے کہ حالات وتقاضے کے بنیادپر طریقہ حیات اور مسائل کا اختلاف دل سے عظمت وبڑائی کی تسلیم کرنے میں مانع نہیں ہے۔بلکہ یہ قرآنی تعلیم کاہی حصہ ہے۔

Saturday, October 15, 2022

نیکیوں کے اثرات

نیکیوں کے اثرات

     نیکی ایساعمل ہے جو کبھی ضائع نہیں ہوتا، اس کے اثرات وبرکات سے نیکی کرنے والاضرور محظوظ ہوتاہے۔ قرآن شریف ہے ’’ اِنَّ اللہَ لَایُضِیۡعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیۡنَ‘‘اللہ تعالی نیکوں کی نیکیاں ضایع نہیں فرماتا۔[سورئہ توبہ:۱۲۰]انسان کی نیکیوںکا دائرئہ فیض صرف اس کے فاعل تک محدود نہیں رہتا،بلکہ دوسرے انسانوں پربھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔صدر الافاضل علامہ نعیم الدین مرادی آبادی علیہ الرحمہ نے درج ذیل آیت کریمہ کے تحت ایک حدیث پیش کی ہے کہ ’’حضرت محمد بن منکدر نے فرمایا :اللہ تعالی بندے کی نیکی سے اس کی اولاد کو اوراس کی اولاد کی اولاد کو اور اس کے کنبہ والوں کو اور اس کے محلہ داروں کو اپنی حفاظت میں رکھتا ہے‘‘۔بنی اسرائیل میں کاشح نام کا ایک پرہیزگارآدمی تھا، اس نے اپنے دونابالغ بچے اصرم اور صریم کے لیے خزانہ زیردیوار دفن کررکھاتھا، دیوارجب گرنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی نیکیوں کی بدولت اپنی رحمت سے حضرت خضر علیہ السلام کے ذریعہ سیدھی کرادی۔قرآن شریف میں ہے۔’’وَ اَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیۡنِ یَتِیۡمَیۡنِ فِی الْمَدِیۡنَۃِ وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا وَکَانَ اَبُوۡہُمَا صٰلِحًا  فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَا اَشُدَّہُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا کَنۡزَہُمَا، رَحْمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ، وَمَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِیْ‘‘۔وہ دیوار شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی،اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا،اوران کا باپ نیک آدمی تھا، تو آپ کے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکالیں، آپ کے رب کی رحمت سے ،اور یہ کچھ میں نے اپنے حکم سے نہ کیا[بلکہ خداوندکریم کے حکم سے کیا]۔[ترجمۂ کنزالایمان، سورئہ کہف :۸۲] کار خیراورنیک عملی کے نتائج واثرات زمان ومکان اور موت حیات کی زنجیروں میں مقید نہیں ہوتے ،بلکہ ساری کامیابیاں وکامرانیاںاس کی لامحدودبرکتوں کے حصار میں داخل ہوتی ہیں، اسی سے انسان کی دنیاو آخرت بھی سنورتی ہے۔ نیک عملی کی غیرمحدود برکتوں کو سمجھنے کے لیے قرآن کریم کی یہ آیت بہت خوب ہے’’وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمۡ بِاِیۡمٰنٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ مَآ اَلَتْنٰہُمۡ مِّنْ عَمَلِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ‘‘اور جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہم نے ان کی اولاد ان سے ملادی اور ان کے عمل میں انہیں کچھ کمی نہ دی ۔[ترجمۂ کنز الایمان،سورئہ طور:۲۱] اس آیت کی تفسیر میں مصنف خزائن العرفان نے لکھاہےکہ’’جنّت میں اگرچہ باپ دادا کے درجے بلند ہوں تو بھی ان کی خوشی کے لئے ان کی اولاد ان کے ساتھ ملادی جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس اولاد کو بھی وہ درجہ عطا فرمائے گا‘‘۔

عبد الخبیر مصباحی

16 اکتوبر2022

Saturday, October 8, 2022

حسن مصطفوی اور حسن یوسفی کے ممیزات وخصائص

 حسن مصطفوی اور حسن یوسفی کے ممیزات وخصائص

     عبد الخبیر اشرفی مصباحی               

صدر المدرسین دار العلوم عربیہ اہل سنت منظر اسلام التفات گنج امبیڈکر نگر

    نبی کریم ﷺ کے رُوحانی کمالات و خصائص اور باطنی فضائل و محامد منفرد و بے مثال ہیں اسی طرح آپ کا بے مثل حسن و جمال بھی نرالاو لاجواب ہے - حسن وجمال مصطفی ﷺ کااحاطہ کرنازبان وقلم کی بس سے باہرہے۔نبی کریم ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات ظاہری و باطنی محامد ومحاسن کی جامع ہے،زمین وزماں اور مکین ومکاں کا ہرذرہ پرتوِحسنِ مصطفی ﷺہی سے فیض یاب ہے ،کائناتِ رنگ و بو کی ہر حسین شیٔ کو آپ ﷺہی کے حسن کی خیرات ملی ہے-بس یوں کہیے کہ اللہ عزوجل نے اَنبیائے سابقین کے جملہ شمائل و فضائل اور محامد و محاسن آپ صلی ﷺ کی ذاتِ اَقدس میں جمع فرما دیئے ہیں،آپ کی ذات اقدس افضلیت و اکملیت کا معیارِ آخر ہے۔ اِس لحاظ سے حسن و جمال کا معیارِ آخر بھی آپ صلی ﷺ ہی کی ذات ہے۔ 

حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضاداری

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

    نبی کریم ﷺ سراپاحسین و جمیل تھے،دِلکشی و رعنائی آپ کی ذات سے پھوٹی پڑتی تھی، آپ کی ذات حسن و خوبی کی جامع تھی- آپ ﷺ کے اَعضائے مبارکہ کی ساخت اِس قدر مثالی اور حسنِ مناسبت کی آئینہ دار تھی کہ اُسے دیکھ کر ایک حسنِ مجسم، پیکرِ اِنسانی میں ڈھلتا دکھائی دیتا تھا- جسدِ اطہر کی خوبصورتی اور رعنائی و زیبائی اپنی مثال آپ تھی۔اللہ عزوجل نے اپنے محبوب ﷺ کو بے مثل اور تمام عیوب و نقائص سے مبّرا تخلیق کیا تھا۔

أجمل منک لم ترقط عیني

وأجمل منک لم تلد النساء 

خلقت مبرا من کل عیب 

کأنک قد خلقت کماتشاء

    آپ سے زیادہ حسین میری نظروں نے کبھی دیکھا ہی نہیںاورآپ سے زیادہ خوبصورت عورتوں نے جناہی نہیں، آپ ہر عیب سے پاک پیداکئے گئے ہیں گویاآپ اپنی خواہش پر پیداگئے ہیں- 

حسن مصطفیﷺ کی رعنائیاں

    آئیے!وارفتگان جمال محمدی نے اپنے محبوب کے جمال جہاں آراکو دیکھ کر اپنے جذبات کا کس طرح سے اظہار کیاہے ؟ اس کی ایک جھلک احادیث مبارکہ کے جھروکوں سے دیکھتے ہیں:

    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ مارایٔت احسن من رسول اللہ کأن الشمس تجري فی وجھہ واذا ضحک یتلألأ فی الجدر‘‘ [۱]میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ حسین کسی کو نہیں دیکھا، یوں معلوم ہوتاتھاکہ آفتاب آپ کے رخ انور پر روشن ہے، آپ جب ہنستے تھے تو اس کی روشنی سے دیواریں روشن ہوجاتی تھیں-

    حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ قال لہ رجل کان وجھہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مثل السیف فقال: لا، بل مثل الشمس والقمر وکان مستدیرا‘‘[۲]ایک شخص نے رسول کریم ﷺ کے بارے میںکہاکہ: آپ ﷺکا رخ انور تلوار کی طرح چمکدارتھا، آپ نے فرمایا: ہرگزنہیں ، بلکہ آپ ﷺ کا رخ انور آفتاب وماہتاب کی طرح گول تھا-

    حضرت ہند ابن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ یتلألأ وجھہ تلألأ القمر لیلۃ البدر‘‘ [۳]رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا رخ انور یوں چمکتاتھا جیسے چودھویں کا چاند چمکتاہے-

    حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ من راٰہ بداھۃ ھابہ و من خالطہ معرفۃ أحبہ‘‘ [۴]جو نبی کریمﷺکو اچانک دیکھتاوہ ہیبت زدہ ہوجاتا اور جو آپ کے ساتھ میل جول کرتا وہ محبت کرنے لگتا-

    جس نے بھی نبی کریم ﷺکی رعنائیوں کو دیکھا وہ دیکھتاہی رہ گیا آخر میں یہ کہنے پر مجبور ہوا’’لم أرقبلہ ولابعدہ مثلہ ‘‘ایساحسن مجسم نہ پہلے کبھی دیکھااور نہ ہی بعد میں کبھی دکھائی دے گا-[۵]

حسن یوسف علیہ السلام کی تابشیں

    حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ عزوجل نے بے پناہ حسن وجمال سے نوازاتھا، آپ کے حسن وجمال ِخداداد کے سامنے حسینانِ عالَم سرنگوں نظر آتے ہیں، آپ کا حسن وجمال سارے حسینانِ عالَم کے حسن وجمال کے برابر ہے، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِیُوسُفَ إِذَا ہُوَ قَدْ أُعْطِیَ شَطْرَ الْحُسْنِ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِی بِخَیْرٍ‘‘[۶] …شب معراج تیسرے آسمان کا دروازہ ہمارے لیے کھولاگیا، میری ملاقات حضرت یوسف علیہ السلام سے ہوئی، ان کو حسن جمال کا آدھا حصہ دیاگیاہے، انھوں نے میرااستقبال کیااور میرے لیے دعا کی-

    عبد بن حمید ،ابن المنذر اورابو الشیخ نے حضرت عکرمۃ رضی اللہ عنہ روایت کیاہے کہ’’کان فضل حسن یوسف علی الناس ، کفضل القمر لیلۃ البدر علی نجوم السماء‘‘ حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن وجمال کی لوگوں پر اس قدر فضیلت تھی جس طرح چودھویں رات کے چاند کی ستاروں پر فضیلت ہوتی ہے[۷]

    امام ابن منذر ، امام ابو الشیخ، امام طبرانی نے حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا چہرہ بجلی کی طرح چمکتاتھا اور جب کوئی عورت ان کے پاس کسی کام سے آتی تو آپ علیہ السلام اپنے چہرے پر نقاب ڈال لیتے تھے تاکہ وہ عورت کسی فتنہ میں مبتلانہ ہوجائے-[۸]

    حسن یوسف علیہ کی تابشیں اس قدرفروزاں تھیں کہ مصر کی عورتیں وارفتگی میں آگئیں، لیموں کانٹنے کی بجائے اپنی انگلیاں کاٹ ڈالیں اور شعاع یوسفی نے انھیں اس کااحساس بھی ہونے نہ دیا، یہ عورتیں جمال یوسفی کاتاب نہ لاسکیں،حضرت یوسف علیہ السلام کی بشریت سے انکار کردیا اور ایک زباں ہوکر بولیں یہ کوئی معززفرشتہ ہے- قرآن کریم میں ہے:’’فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرِہِنَّ اَرْسَلَتْ اِلَیْہِنَّ وَ اَعْتَدَتْ لَہُنَّ مُتَّکَاً وَّ اٰتَتْ کُلَّ وٰحِدَۃٍ مِّنْہُنَّ سِکِّیْنًا وَّ قَالَتِ اخْرُجْ عَلَیْہِنَّ  فَلَمَّا رَاَیْنَہٓ اَکْبَرْنَہ وَقَطَّعْنَ اَیْدِیَہُنَّ وَقُلْنَ حٰشَ لِلہِ مَا ہٰذَا بَشَرًا  اِنْ ہٰذَآ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیْمٌ ‘‘تو جب زلیخا نے ان کا چکروا سنا تو ان عورتوں کو بُلا بھیجا ،اور ان کے لئے مسندیں تیار کیں ،اور ان میں ہر ایک کو ایک چھری دے دی ،اور یوسف سے کہا: ان پر نکل آؤ ،جب عورتوں نے یوسف کو دیکھا اس کی بڑائی بولنے لگیں ،اور اپنے ہاتھ کاٹ لئے ،اور بولیں اللہ کو پاکی ہے یہ تو جنسِ بشر سے نہیں ،یہ تو نہیں مگر کوئی معزّز فرشتہ- [۹]

حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں

سرکٹاتے ہیں ترے نام پہ مردان عرب

جمال مصطفوی وحسن یوسفی کے ممیزات

    اللہ عزوجل نے جملہ انبیاومرسلین کو حسن صورت وحسن صوت عطافرمایا-حضرت امام ترمذی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ:’’ما بعث اللہ نبیاً إلا حسن الوجہ حسن الصوت، وکان نبیکم أحسنہم وجہاً وأحسنہم صوتا‘‘ [۱۰]اللہ تعالی نے ہرنبی کو اچھی صورت اور اچھی آواز کے ساتھ مبعوث فرمایا نبی اکرمﷺان میںسب سے حسین اور خوش گلوہیں-

    مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ حسن یوسف علیہ السلام کے تعلق سے وارد احادیث میں حضرت نبی کریم ﷺشامل نہیں ہیںچنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں’’فیحمل حدیث المعراج علی أن المراد غیر النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ [۱۱]معراج والی جس میں حضرت یوسف علیہ السلام کو نصف حسن دئیے جانے کا ذکر ہے اس میں نبی کریم ﷺ شامل نہیں ہیں-آپ کاحسن اکمل واتم اور حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن ،حسنِ عالم کانصف یااس سے کم- 

    ایک قول یہ ہے کہ حسنِ یوسف علیہ السلام حسن ِمصطفی ﷺ کا نصف ہے-جیساکہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں ابن منیر کے حوالہ سے لکھاہے:’’فقد حملہ ابن المنیر علی أن المراد أن یوسف أعطی شطر الحسن الذی أوتیہ نبیناً صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ابن منیر نے کہاہے کہ یوسف علیہ السلام کو نبی کریمﷺ کے حسن کا نصف ملاتھا-

    ایک قول یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن ،حسن عالَم کا نصف نہیں بلکہ حسنِ حضرت آدم علیہ السلام کا نصف ہے جیساکہ امام ابو القاسم سہیلی نے کہاہے: ’’أن یوسف کان علی النصف من حسن آدم، علیہ السلام، فإن اللہ خلق آدم بیدہ علی أکمل صورۃ وأحسنہا، ولم یکن فی ذریتہ من یوازیہ فی جمالہ، وکان یوسف قد أعطی شطر حسنہ‘‘[۱۲]حسن یوسف علیہ السلام حسن آدم علیہ السلام کا نصف ہے، اللہ عزوجل نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے دست قدرت سے حسن وصورت کے اعلی معیار پر پیدافرمایا ، ذریت آدم علیہ السلام میں کسی کا حسن ، حسن وجمالِ آدم علیہ السلام کے برابرنہیں تھا، حضرت یوسف علیہ السلام کو حسنِ آدم کا نصف حصہ دیاگیاتھا-

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظاہری حُسن و جمال کئی پردوں میں مستور تھا، مگرپھربھی دیکھنے والا آپ ﷺکی وجاہت اور بے پناہ حسن و جمال سے مبہوت ہو کر رہ جاتا ، حسن یوسف علیہ السلام کو مخلوق سے پوشیدہ نہیں رکھا گیا، جس نے دیکھامکمل صنعت خداوندی کا نظارہ کیا-علامہ مفتی احمد یارخان علیہ الرحمہ نے صاحب مرقات کے حوالہ سے لکھا ہے کہ:’’ حضور کے چہرے میں درودیوار ایسے نظر آتے تھے جیسے آئینہ میں اور فرمایا کہ حسن مصطفی کماحقہ صحابہ کو نہیں دکھایا گیا کہ کسی میں اس کے دیکھنے کی طاقت نہ تھی مگر حسن یوسفی کماحقہ سب کو دکھادیا گیا‘‘[۱۳] 

حسنِ یوسف سے کہیں بڑھ کر تھا حسنِ مصطفی 

بات یہ تھی اس کا کوئی دیکھنے والا نہ تھا

    علامہ مفتی احمد یارخان علیہ الرحمہ ایک دوسری جگہ یوں رقم طراز ہیں:’’ایک یہ کہ تمام حسین صرف انسانوں کے محبوب ہوئے، حضور انور انسان،جنّ،لکڑی،پتھر،جانوروں کے بھی محبوب ہیں یعنی خدائی کے محبوب ہیں کیونکہ خدا کے محبوب ہیں،دوسرے یہ کہ دوسرے محبوبوں کو ہزاروں نے دیکھا مگر عاشق ایک دو ہوئے،حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کی محبوبیت کا یہ عالم ہے کہ آج ان کا دیکھنے والا کوئی نہیں اور عاشق کروڑوں ہیں‘‘ [۱۴]

    مزید تحریر فرماتے ہیں’’سارے حسینوں کا یہ حال ہے کہ انہیں دیکھا ہزاروں نے مگر عاشق ہوا ایک۔حسن یوسف کی عاشق صرف زلیخا،لیلیٰ پر فریفتہ صرف مجنوں،حضور صلی اللہ علیہ و سلم ایسے حسین ہیں کہ آج انہیں دیکھنے والا کوئی نہیں مگر جاں نثار عاشق لاکھوں،حسن یوسفی صرف بازار مصر میں چمکا،حسن محمدی ہر جگہ تا ابد چمک رہا ہے‘‘-[۱۵]

    حسن مصطفی ﷺ کی کوئی مثال نہیں ہے، نہ دنیامیں ہے اور نہ آخرت میںہوسکتی ہے-آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرئہ اقدس مظہرِ حق کی شان عظیم ہے ،اس لیے اس چہرہ انور کے دیدار کو عین دیدارِ حق قراردیا گیا، حدیث شریف میں ہے’’من رأنيفقد رایٔ الحق فان الشیطان لایتکونني‘‘[۱۶]جس نے مجھے دیکھا اس نے حق کو دیکھا کیوں کہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا-حضرت یوسف علیہ السلام کی مثال حسن دنیا میں بھی موجودتھی اور آخرت میں بھی موجودہوگی ، حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن وجمال دنیامیں عام وتام تھا، بعض اہل دنیاجیسے حضرت عبد اللہ ابن جریرکے بارے میں روایت آئی ہے کہ وہ یوسف جمال تھے- ایک ضعیف روایت میں ہے کہ اہل جنت صورت جمال یوسفی اور پیکراخلاقی محمدی میںہوگے -[۱۷]

    رسول کریم ﷺکا حسن جاذب نظر، دل نشیںودلکش اور مسحور کن تھا، آپ کی صورت زیبا ملیح اورجملہ تخلیقی رعنائیوں کا مرقع تھی، حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن سادہ ،گورااورروشن ودرخشاں تھا-

حوالے وحواشی

[۱] ابن عفیفی حضرمی، نور الیقین فی سیرۃ سید المرسلین ،ج:۱،ص:۲۰۷، مطبوعہ دار المعرفہ بیروت سن اشاعت ۲۰۰۴، اس حدیث کوقاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ نے بھی شفاشریف میں درج کیا ہے-

[۲] مسلم، حدیث نمبر۶۲۳۰، باب شبیہ ﷺ،مطبوعہ دار الآفاق بیروت-

[۳] علی متقی برہانپوری ، کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال، باب حلیتہ ﷺ، ج:۷،ص:۱۶۳، مطبوعہ بیروت سن اشاعت ۱۴۸۱

[۴] ترمذی، سنن الترمذی، باب ماجاء فی صفۃ النبی ﷺ،مطبوعہ سہارنپور-

[۵] نفس مرجع نفس باب-

[۶] مسلم، الصحیح لمسلم، حدیث نمبر۴۲۹،باب الاسراء برسول اللہﷺ الی السماء،مطبوعہ دار الآفاق بیروت-

[۷] ایک روایت جسے امام احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ اور امام حاکم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کی ہے اس میں نصف حسن میں حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ بھی شریک ہیںچنانچہ نبی کریمﷺ نے فرمایا’’أعطی یوسف وأمہ شطر الحسن‘‘حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کی والدہ کو نصف حسن دیاگیا-ایک روایت میں حضرت یوسف اور ان کی والدہ کے لیے ایک تہائی حسن کاذکر آیاہے ، اس روایت کوامام احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم ، ابو الشیخ اور امام طبرانی نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے :’’أعطی یوسف وأمہ ثلث الحسن‘‘حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کی والدہ کو ثلث حسن دیاگیا- حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن وجمال کے سلسلہ میں وارد احادیث وآثار کے لیے دیکھئے در منثور،ج:۴، ص:۵۳۲، مطبوعہ دار الفکر بیروت سن اشاعت ۱۴۱۴ھ -

[۸] در منثور،ج:۴، ص:۵۳۲، مطبوعہ دار الفکر بیروت سن اشاعت ۱۴۱۴ھ -

[۹] ترجمہ کنز الایمان، سورئہ یوسف:۳۱-

[۱۰] ابن حجر عسقلانی،فتح الباری ، ج:۷،ص:۲۱۰ ،بات المعراج ،مطبوعہ دار المعرفہ بیروت، ۱۳۷۹ھ-

[۱۱] نفس مرجع نفس صفحہ-

[۱۲] تفسیر ابن کثیر جلد:۴، ص:۲۸۵، مطبوعہ دار طیبہ سن اشاعت ۱۹۹۹-

[۱۳] مرأۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد ششم ص:۱۲۱، مکتبۃ المدینہ-

[۱۴] مرأۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلدچہارم ص:۳۵۵، مکتبۃ المدینہ

[۱۵] مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ،جلد ششم ص:۱۶۰، مکتبۃ المدینہ

[۱۶] بخاری ، کتاب التعبیر ، حدیث نمبر ۶۵۹۶

[۱۷] تفسیر مقاتل ابن سلیمان ابن بشیر رضی اللہ عنہ متوفی ۱۵۰ ،ج:۳،ص:۴۳۲،دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۴/۲۰۰۳-