Thursday, November 17, 2022

رسولوں پر ایمان لانے کاحکم

 رسولوں پر ایمان لانے کاحکم 

قرآن کریم میں ہے:

    ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ-وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا۔‘‘

اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر ، اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اُتاری اور اُس کتاب پر جو پہلے اُتاری ،اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا۔

ایک دوسری آیت میں ہے:

’’لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ‘‘

اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو ، ہاں اصلی نیکی یہ کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر۔

نیز اللہ عزوجل فرماتاہے:

’’اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ-كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ۫-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۫-وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ، غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ‘‘

رسول ایمان لائےاس پر جو ان کے رب کے پاس سے ان پر اُترا ۔اور سب ایمان والوں نے مانا ، اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو، [اورسب نے یہی کہا] ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے ، اور[سب نے] عرض کی کہ ہم نے سنا اور مانا ، تیری معافی ہو اے رب ہمارے اور تیری ہی طرف پھرنا ہے۔

رسولوں پر ایمان لانے کا مطلب

دل سے تصدیق کرناکہ اللہ تعالیٰ نے ہرامت میں پیغمبر بھیجاجوانہیں اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کی دعوت دیتے تھے۔اوریہ یقین رکھے کہ تمام انبیا سچے ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں۔امانت داراور ہدایت یافتہ ہوتے ہیں۔انہوں نے اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے پیغام کو مکمل پہنچادیا۔اس میں انہوں نے کوئی کمی زیادتی اور تبدیلی نہیں کی اور نہ ہی کچھ چھپایا۔

رسولوں پر ایمان لانے کا اجر

وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ لَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ اُولٰٓىٕكَ سَوْفَ یُؤْتِیْهِمْ اُجُوْرَهُمْؕ

اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی پر ایمان میں فرق نہ کیا انہیں عنقریب اللہ ان کے ثواب دے گا۔

رسولوں پر ایمان لانے کے فوائد

اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بندوں پراس کی عنایت کا علم، بندوں کو طریقۂ حیات انبیاکی تعلیم سے ملی،لہذاان پر ایمان سے زندگی کے سلیقے سیکھنے کو ملیں گے۔

بندوں کی خیرخواہی کے کاموں میں حصہ لینے والوں کی عظمت ظاہرہوتی ہے۔انہوں نے بندوں کی خیرخواہی میں حصہ لیاتواللہ کریم نے ان کی محبت وعظمت بندوں کے دلوں میں ڈال دیا۔

سارے انبیاپر ایمان لانا ،نعمت الہی کا شکریہ اداکرناہے۔

اختلاف شرائع کے باوجود سارے انبیاپر ایمان لانے کا حکم ہمیں یہ بتاتاہے کہ حالات وتقاضے کے بنیادپر طریقہ حیات اور مسائل کا اختلاف دل سے عظمت وبڑائی کی تسلیم کرنے میں مانع نہیں ہے۔بلکہ یہ قرآنی تعلیم کاہی حصہ ہے۔

Saturday, October 15, 2022

نیکیوں کے اثرات

نیکیوں کے اثرات

     نیکی ایساعمل ہے جو کبھی ضائع نہیں ہوتا، اس کے اثرات وبرکات سے نیکی کرنے والاضرور محظوظ ہوتاہے۔ قرآن شریف ہے ’’ اِنَّ اللہَ لَایُضِیۡعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیۡنَ‘‘اللہ تعالی نیکوں کی نیکیاں ضایع نہیں فرماتا۔[سورئہ توبہ:۱۲۰]انسان کی نیکیوںکا دائرئہ فیض صرف اس کے فاعل تک محدود نہیں رہتا،بلکہ دوسرے انسانوں پربھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔صدر الافاضل علامہ نعیم الدین مرادی آبادی علیہ الرحمہ نے درج ذیل آیت کریمہ کے تحت ایک حدیث پیش کی ہے کہ ’’حضرت محمد بن منکدر نے فرمایا :اللہ تعالی بندے کی نیکی سے اس کی اولاد کو اوراس کی اولاد کی اولاد کو اور اس کے کنبہ والوں کو اور اس کے محلہ داروں کو اپنی حفاظت میں رکھتا ہے‘‘۔بنی اسرائیل میں کاشح نام کا ایک پرہیزگارآدمی تھا، اس نے اپنے دونابالغ بچے اصرم اور صریم کے لیے خزانہ زیردیوار دفن کررکھاتھا، دیوارجب گرنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی نیکیوں کی بدولت اپنی رحمت سے حضرت خضر علیہ السلام کے ذریعہ سیدھی کرادی۔قرآن شریف میں ہے۔’’وَ اَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیۡنِ یَتِیۡمَیۡنِ فِی الْمَدِیۡنَۃِ وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا وَکَانَ اَبُوۡہُمَا صٰلِحًا  فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَا اَشُدَّہُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا کَنۡزَہُمَا، رَحْمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ، وَمَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِیْ‘‘۔وہ دیوار شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی،اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا،اوران کا باپ نیک آدمی تھا، تو آپ کے رب نے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکالیں، آپ کے رب کی رحمت سے ،اور یہ کچھ میں نے اپنے حکم سے نہ کیا[بلکہ خداوندکریم کے حکم سے کیا]۔[ترجمۂ کنزالایمان، سورئہ کہف :۸۲] کار خیراورنیک عملی کے نتائج واثرات زمان ومکان اور موت حیات کی زنجیروں میں مقید نہیں ہوتے ،بلکہ ساری کامیابیاں وکامرانیاںاس کی لامحدودبرکتوں کے حصار میں داخل ہوتی ہیں، اسی سے انسان کی دنیاو آخرت بھی سنورتی ہے۔ نیک عملی کی غیرمحدود برکتوں کو سمجھنے کے لیے قرآن کریم کی یہ آیت بہت خوب ہے’’وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمۡ بِاِیۡمٰنٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ مَآ اَلَتْنٰہُمۡ مِّنْ عَمَلِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ‘‘اور جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہم نے ان کی اولاد ان سے ملادی اور ان کے عمل میں انہیں کچھ کمی نہ دی ۔[ترجمۂ کنز الایمان،سورئہ طور:۲۱] اس آیت کی تفسیر میں مصنف خزائن العرفان نے لکھاہےکہ’’جنّت میں اگرچہ باپ دادا کے درجے بلند ہوں تو بھی ان کی خوشی کے لئے ان کی اولاد ان کے ساتھ ملادی جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس اولاد کو بھی وہ درجہ عطا فرمائے گا‘‘۔

عبد الخبیر مصباحی

16 اکتوبر2022

Saturday, October 8, 2022

حسن مصطفوی اور حسن یوسفی کے ممیزات وخصائص

 حسن مصطفوی اور حسن یوسفی کے ممیزات وخصائص

     عبد الخبیر اشرفی مصباحی               

صدر المدرسین دار العلوم عربیہ اہل سنت منظر اسلام التفات گنج امبیڈکر نگر

    نبی کریم ﷺ کے رُوحانی کمالات و خصائص اور باطنی فضائل و محامد منفرد و بے مثال ہیں اسی طرح آپ کا بے مثل حسن و جمال بھی نرالاو لاجواب ہے - حسن وجمال مصطفی ﷺ کااحاطہ کرنازبان وقلم کی بس سے باہرہے۔نبی کریم ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات ظاہری و باطنی محامد ومحاسن کی جامع ہے،زمین وزماں اور مکین ومکاں کا ہرذرہ پرتوِحسنِ مصطفی ﷺہی سے فیض یاب ہے ،کائناتِ رنگ و بو کی ہر حسین شیٔ کو آپ ﷺہی کے حسن کی خیرات ملی ہے-بس یوں کہیے کہ اللہ عزوجل نے اَنبیائے سابقین کے جملہ شمائل و فضائل اور محامد و محاسن آپ صلی ﷺ کی ذاتِ اَقدس میں جمع فرما دیئے ہیں،آپ کی ذات اقدس افضلیت و اکملیت کا معیارِ آخر ہے۔ اِس لحاظ سے حسن و جمال کا معیارِ آخر بھی آپ صلی ﷺ ہی کی ذات ہے۔ 

حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضاداری

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

    نبی کریم ﷺ سراپاحسین و جمیل تھے،دِلکشی و رعنائی آپ کی ذات سے پھوٹی پڑتی تھی، آپ کی ذات حسن و خوبی کی جامع تھی- آپ ﷺ کے اَعضائے مبارکہ کی ساخت اِس قدر مثالی اور حسنِ مناسبت کی آئینہ دار تھی کہ اُسے دیکھ کر ایک حسنِ مجسم، پیکرِ اِنسانی میں ڈھلتا دکھائی دیتا تھا- جسدِ اطہر کی خوبصورتی اور رعنائی و زیبائی اپنی مثال آپ تھی۔اللہ عزوجل نے اپنے محبوب ﷺ کو بے مثل اور تمام عیوب و نقائص سے مبّرا تخلیق کیا تھا۔

أجمل منک لم ترقط عیني

وأجمل منک لم تلد النساء 

خلقت مبرا من کل عیب 

کأنک قد خلقت کماتشاء

    آپ سے زیادہ حسین میری نظروں نے کبھی دیکھا ہی نہیںاورآپ سے زیادہ خوبصورت عورتوں نے جناہی نہیں، آپ ہر عیب سے پاک پیداکئے گئے ہیں گویاآپ اپنی خواہش پر پیداگئے ہیں- 

حسن مصطفیﷺ کی رعنائیاں

    آئیے!وارفتگان جمال محمدی نے اپنے محبوب کے جمال جہاں آراکو دیکھ کر اپنے جذبات کا کس طرح سے اظہار کیاہے ؟ اس کی ایک جھلک احادیث مبارکہ کے جھروکوں سے دیکھتے ہیں:

    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ مارایٔت احسن من رسول اللہ کأن الشمس تجري فی وجھہ واذا ضحک یتلألأ فی الجدر‘‘ [۱]میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ حسین کسی کو نہیں دیکھا، یوں معلوم ہوتاتھاکہ آفتاب آپ کے رخ انور پر روشن ہے، آپ جب ہنستے تھے تو اس کی روشنی سے دیواریں روشن ہوجاتی تھیں-

    حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ قال لہ رجل کان وجھہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مثل السیف فقال: لا، بل مثل الشمس والقمر وکان مستدیرا‘‘[۲]ایک شخص نے رسول کریم ﷺ کے بارے میںکہاکہ: آپ ﷺکا رخ انور تلوار کی طرح چمکدارتھا، آپ نے فرمایا: ہرگزنہیں ، بلکہ آپ ﷺ کا رخ انور آفتاب وماہتاب کی طرح گول تھا-

    حضرت ہند ابن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ یتلألأ وجھہ تلألأ القمر لیلۃ البدر‘‘ [۳]رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا رخ انور یوں چمکتاتھا جیسے چودھویں کا چاند چمکتاہے-

    حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ من راٰہ بداھۃ ھابہ و من خالطہ معرفۃ أحبہ‘‘ [۴]جو نبی کریمﷺکو اچانک دیکھتاوہ ہیبت زدہ ہوجاتا اور جو آپ کے ساتھ میل جول کرتا وہ محبت کرنے لگتا-

    جس نے بھی نبی کریم ﷺکی رعنائیوں کو دیکھا وہ دیکھتاہی رہ گیا آخر میں یہ کہنے پر مجبور ہوا’’لم أرقبلہ ولابعدہ مثلہ ‘‘ایساحسن مجسم نہ پہلے کبھی دیکھااور نہ ہی بعد میں کبھی دکھائی دے گا-[۵]

حسن یوسف علیہ السلام کی تابشیں

    حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ عزوجل نے بے پناہ حسن وجمال سے نوازاتھا، آپ کے حسن وجمال ِخداداد کے سامنے حسینانِ عالَم سرنگوں نظر آتے ہیں، آپ کا حسن وجمال سارے حسینانِ عالَم کے حسن وجمال کے برابر ہے، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِیُوسُفَ إِذَا ہُوَ قَدْ أُعْطِیَ شَطْرَ الْحُسْنِ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِی بِخَیْرٍ‘‘[۶] …شب معراج تیسرے آسمان کا دروازہ ہمارے لیے کھولاگیا، میری ملاقات حضرت یوسف علیہ السلام سے ہوئی، ان کو حسن جمال کا آدھا حصہ دیاگیاہے، انھوں نے میرااستقبال کیااور میرے لیے دعا کی-

    عبد بن حمید ،ابن المنذر اورابو الشیخ نے حضرت عکرمۃ رضی اللہ عنہ روایت کیاہے کہ’’کان فضل حسن یوسف علی الناس ، کفضل القمر لیلۃ البدر علی نجوم السماء‘‘ حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن وجمال کی لوگوں پر اس قدر فضیلت تھی جس طرح چودھویں رات کے چاند کی ستاروں پر فضیلت ہوتی ہے[۷]

    امام ابن منذر ، امام ابو الشیخ، امام طبرانی نے حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا چہرہ بجلی کی طرح چمکتاتھا اور جب کوئی عورت ان کے پاس کسی کام سے آتی تو آپ علیہ السلام اپنے چہرے پر نقاب ڈال لیتے تھے تاکہ وہ عورت کسی فتنہ میں مبتلانہ ہوجائے-[۸]

    حسن یوسف علیہ کی تابشیں اس قدرفروزاں تھیں کہ مصر کی عورتیں وارفتگی میں آگئیں، لیموں کانٹنے کی بجائے اپنی انگلیاں کاٹ ڈالیں اور شعاع یوسفی نے انھیں اس کااحساس بھی ہونے نہ دیا، یہ عورتیں جمال یوسفی کاتاب نہ لاسکیں،حضرت یوسف علیہ السلام کی بشریت سے انکار کردیا اور ایک زباں ہوکر بولیں یہ کوئی معززفرشتہ ہے- قرآن کریم میں ہے:’’فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرِہِنَّ اَرْسَلَتْ اِلَیْہِنَّ وَ اَعْتَدَتْ لَہُنَّ مُتَّکَاً وَّ اٰتَتْ کُلَّ وٰحِدَۃٍ مِّنْہُنَّ سِکِّیْنًا وَّ قَالَتِ اخْرُجْ عَلَیْہِنَّ  فَلَمَّا رَاَیْنَہٓ اَکْبَرْنَہ وَقَطَّعْنَ اَیْدِیَہُنَّ وَقُلْنَ حٰشَ لِلہِ مَا ہٰذَا بَشَرًا  اِنْ ہٰذَآ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیْمٌ ‘‘تو جب زلیخا نے ان کا چکروا سنا تو ان عورتوں کو بُلا بھیجا ،اور ان کے لئے مسندیں تیار کیں ،اور ان میں ہر ایک کو ایک چھری دے دی ،اور یوسف سے کہا: ان پر نکل آؤ ،جب عورتوں نے یوسف کو دیکھا اس کی بڑائی بولنے لگیں ،اور اپنے ہاتھ کاٹ لئے ،اور بولیں اللہ کو پاکی ہے یہ تو جنسِ بشر سے نہیں ،یہ تو نہیں مگر کوئی معزّز فرشتہ- [۹]

حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں

سرکٹاتے ہیں ترے نام پہ مردان عرب

جمال مصطفوی وحسن یوسفی کے ممیزات

    اللہ عزوجل نے جملہ انبیاومرسلین کو حسن صورت وحسن صوت عطافرمایا-حضرت امام ترمذی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ:’’ما بعث اللہ نبیاً إلا حسن الوجہ حسن الصوت، وکان نبیکم أحسنہم وجہاً وأحسنہم صوتا‘‘ [۱۰]اللہ تعالی نے ہرنبی کو اچھی صورت اور اچھی آواز کے ساتھ مبعوث فرمایا نبی اکرمﷺان میںسب سے حسین اور خوش گلوہیں-

    مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ حسن یوسف علیہ السلام کے تعلق سے وارد احادیث میں حضرت نبی کریم ﷺشامل نہیں ہیںچنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں’’فیحمل حدیث المعراج علی أن المراد غیر النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ [۱۱]معراج والی جس میں حضرت یوسف علیہ السلام کو نصف حسن دئیے جانے کا ذکر ہے اس میں نبی کریم ﷺ شامل نہیں ہیں-آپ کاحسن اکمل واتم اور حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن ،حسنِ عالم کانصف یااس سے کم- 

    ایک قول یہ ہے کہ حسنِ یوسف علیہ السلام حسن ِمصطفی ﷺ کا نصف ہے-جیساکہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں ابن منیر کے حوالہ سے لکھاہے:’’فقد حملہ ابن المنیر علی أن المراد أن یوسف أعطی شطر الحسن الذی أوتیہ نبیناً صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ابن منیر نے کہاہے کہ یوسف علیہ السلام کو نبی کریمﷺ کے حسن کا نصف ملاتھا-

    ایک قول یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن ،حسن عالَم کا نصف نہیں بلکہ حسنِ حضرت آدم علیہ السلام کا نصف ہے جیساکہ امام ابو القاسم سہیلی نے کہاہے: ’’أن یوسف کان علی النصف من حسن آدم، علیہ السلام، فإن اللہ خلق آدم بیدہ علی أکمل صورۃ وأحسنہا، ولم یکن فی ذریتہ من یوازیہ فی جمالہ، وکان یوسف قد أعطی شطر حسنہ‘‘[۱۲]حسن یوسف علیہ السلام حسن آدم علیہ السلام کا نصف ہے، اللہ عزوجل نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے دست قدرت سے حسن وصورت کے اعلی معیار پر پیدافرمایا ، ذریت آدم علیہ السلام میں کسی کا حسن ، حسن وجمالِ آدم علیہ السلام کے برابرنہیں تھا، حضرت یوسف علیہ السلام کو حسنِ آدم کا نصف حصہ دیاگیاتھا-

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظاہری حُسن و جمال کئی پردوں میں مستور تھا، مگرپھربھی دیکھنے والا آپ ﷺکی وجاہت اور بے پناہ حسن و جمال سے مبہوت ہو کر رہ جاتا ، حسن یوسف علیہ السلام کو مخلوق سے پوشیدہ نہیں رکھا گیا، جس نے دیکھامکمل صنعت خداوندی کا نظارہ کیا-علامہ مفتی احمد یارخان علیہ الرحمہ نے صاحب مرقات کے حوالہ سے لکھا ہے کہ:’’ حضور کے چہرے میں درودیوار ایسے نظر آتے تھے جیسے آئینہ میں اور فرمایا کہ حسن مصطفی کماحقہ صحابہ کو نہیں دکھایا گیا کہ کسی میں اس کے دیکھنے کی طاقت نہ تھی مگر حسن یوسفی کماحقہ سب کو دکھادیا گیا‘‘[۱۳] 

حسنِ یوسف سے کہیں بڑھ کر تھا حسنِ مصطفی 

بات یہ تھی اس کا کوئی دیکھنے والا نہ تھا

    علامہ مفتی احمد یارخان علیہ الرحمہ ایک دوسری جگہ یوں رقم طراز ہیں:’’ایک یہ کہ تمام حسین صرف انسانوں کے محبوب ہوئے، حضور انور انسان،جنّ،لکڑی،پتھر،جانوروں کے بھی محبوب ہیں یعنی خدائی کے محبوب ہیں کیونکہ خدا کے محبوب ہیں،دوسرے یہ کہ دوسرے محبوبوں کو ہزاروں نے دیکھا مگر عاشق ایک دو ہوئے،حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کی محبوبیت کا یہ عالم ہے کہ آج ان کا دیکھنے والا کوئی نہیں اور عاشق کروڑوں ہیں‘‘ [۱۴]

    مزید تحریر فرماتے ہیں’’سارے حسینوں کا یہ حال ہے کہ انہیں دیکھا ہزاروں نے مگر عاشق ہوا ایک۔حسن یوسف کی عاشق صرف زلیخا،لیلیٰ پر فریفتہ صرف مجنوں،حضور صلی اللہ علیہ و سلم ایسے حسین ہیں کہ آج انہیں دیکھنے والا کوئی نہیں مگر جاں نثار عاشق لاکھوں،حسن یوسفی صرف بازار مصر میں چمکا،حسن محمدی ہر جگہ تا ابد چمک رہا ہے‘‘-[۱۵]

    حسن مصطفی ﷺ کی کوئی مثال نہیں ہے، نہ دنیامیں ہے اور نہ آخرت میںہوسکتی ہے-آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرئہ اقدس مظہرِ حق کی شان عظیم ہے ،اس لیے اس چہرہ انور کے دیدار کو عین دیدارِ حق قراردیا گیا، حدیث شریف میں ہے’’من رأنيفقد رایٔ الحق فان الشیطان لایتکونني‘‘[۱۶]جس نے مجھے دیکھا اس نے حق کو دیکھا کیوں کہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا-حضرت یوسف علیہ السلام کی مثال حسن دنیا میں بھی موجودتھی اور آخرت میں بھی موجودہوگی ، حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن وجمال دنیامیں عام وتام تھا، بعض اہل دنیاجیسے حضرت عبد اللہ ابن جریرکے بارے میں روایت آئی ہے کہ وہ یوسف جمال تھے- ایک ضعیف روایت میں ہے کہ اہل جنت صورت جمال یوسفی اور پیکراخلاقی محمدی میںہوگے -[۱۷]

    رسول کریم ﷺکا حسن جاذب نظر، دل نشیںودلکش اور مسحور کن تھا، آپ کی صورت زیبا ملیح اورجملہ تخلیقی رعنائیوں کا مرقع تھی، حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن سادہ ،گورااورروشن ودرخشاں تھا-

حوالے وحواشی

[۱] ابن عفیفی حضرمی، نور الیقین فی سیرۃ سید المرسلین ،ج:۱،ص:۲۰۷، مطبوعہ دار المعرفہ بیروت سن اشاعت ۲۰۰۴، اس حدیث کوقاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ نے بھی شفاشریف میں درج کیا ہے-

[۲] مسلم، حدیث نمبر۶۲۳۰، باب شبیہ ﷺ،مطبوعہ دار الآفاق بیروت-

[۳] علی متقی برہانپوری ، کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال، باب حلیتہ ﷺ، ج:۷،ص:۱۶۳، مطبوعہ بیروت سن اشاعت ۱۴۸۱

[۴] ترمذی، سنن الترمذی، باب ماجاء فی صفۃ النبی ﷺ،مطبوعہ سہارنپور-

[۵] نفس مرجع نفس باب-

[۶] مسلم، الصحیح لمسلم، حدیث نمبر۴۲۹،باب الاسراء برسول اللہﷺ الی السماء،مطبوعہ دار الآفاق بیروت-

[۷] ایک روایت جسے امام احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ اور امام حاکم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کی ہے اس میں نصف حسن میں حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ بھی شریک ہیںچنانچہ نبی کریمﷺ نے فرمایا’’أعطی یوسف وأمہ شطر الحسن‘‘حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کی والدہ کو نصف حسن دیاگیا-ایک روایت میں حضرت یوسف اور ان کی والدہ کے لیے ایک تہائی حسن کاذکر آیاہے ، اس روایت کوامام احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم ، ابو الشیخ اور امام طبرانی نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے :’’أعطی یوسف وأمہ ثلث الحسن‘‘حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کی والدہ کو ثلث حسن دیاگیا- حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن وجمال کے سلسلہ میں وارد احادیث وآثار کے لیے دیکھئے در منثور،ج:۴، ص:۵۳۲، مطبوعہ دار الفکر بیروت سن اشاعت ۱۴۱۴ھ -

[۸] در منثور،ج:۴، ص:۵۳۲، مطبوعہ دار الفکر بیروت سن اشاعت ۱۴۱۴ھ -

[۹] ترجمہ کنز الایمان، سورئہ یوسف:۳۱-

[۱۰] ابن حجر عسقلانی،فتح الباری ، ج:۷،ص:۲۱۰ ،بات المعراج ،مطبوعہ دار المعرفہ بیروت، ۱۳۷۹ھ-

[۱۱] نفس مرجع نفس صفحہ-

[۱۲] تفسیر ابن کثیر جلد:۴، ص:۲۸۵، مطبوعہ دار طیبہ سن اشاعت ۱۹۹۹-

[۱۳] مرأۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد ششم ص:۱۲۱، مکتبۃ المدینہ-

[۱۴] مرأۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلدچہارم ص:۳۵۵، مکتبۃ المدینہ

[۱۵] مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ،جلد ششم ص:۱۶۰، مکتبۃ المدینہ

[۱۶] بخاری ، کتاب التعبیر ، حدیث نمبر ۶۵۹۶

[۱۷] تفسیر مقاتل ابن سلیمان ابن بشیر رضی اللہ عنہ متوفی ۱۵۰ ،ج:۳،ص:۴۳۲،دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۴/۲۰۰۳-


Wednesday, May 20, 2020

رمضان کا آخری عشرہ،شب قدر اور رسول اللہﷺ کےمعمولات

 از قلم:عبد الخبیر اشرفی مصباحی،صدر المدرسین دار العلوم عربیہ اہل سنت منظر،التفات گنج،امبیڈکرنگر

     وہی خداہے جوپالنہارہے،مختار ہے،سب کا خالق وہی ہے، سب کامالک وہی ہے۔ اگروہ کسی کو کچھ نہ دیتاتو کسی کے پاس کچھ نہ ہوتا۔ اس نے جوچاہاجسے چاہا،دیا- عالم کوعلم دیا،جاہل محروم رہ گیا- امیرکو توانگری دی اور فقیرنےگداگری لے لی-اس نے جس کوچاہا رسول بنا دیا اورجس کو چاہا امتی کردیا’’اَللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہ‘‘اللہ خوب جانتا ہے کہ رسالت کا حق دارکون ہے اور امتی ہونے کا مستحق کون ہے-حکومت وبادشاہت اسی کی عطاہے ،عزت وآبروبھی اسی کی بخشش ہے-ایک رات جوسورج کی روشنی سے بالکل محروم تھی،چاند کی چاندنی بھی نام کی میسرتھی، وہ تاریک تھی،بے نورتھی، قرآن کریم نے اس کا نام’’قدر‘‘ رکھ دیا،اسی کے نام پر ایک سورہ کانام رکھ دیا،ذرہ کو آفتاب بنادیا، قدروتعظیم اس کی اصل میں شامل کردیا،اس تعظیم وتکریم کوجلالت وعظمت کاتاج اس وقت پہنایا گیا جب’’خَیۡرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہۡرٍ‘‘کَہ کراسےہزارمہینوں سے بہتر قراردے دیا گیا۔وہ قدروالی ہوگئی،اس کی قدرشناسی کرنے والے قدرداں ہوگئے اور محبوب بارگاہ رحمان ہوگئے۔
نسبتیں انسان کو ممتازکرتی ہیں،شب قدرکی نسبت جسے ملتی ہے ،وہ بھی ممتازہوتاہے،دل ایمان واخلاص سے بھرا ہو، جبین لذت سجدہ سےآشنا ہو، شب قدرکی برکتیں نصیب ہو،عبادتوں اورریاضتوں کی سوغات لیے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضرہوتورب تعالیٰ ایسے بندوں کےگناہ معاف کردیتاہے۔نسبت شب قدر کی باعث بارگاہِ الٰہی میں ان کی عبادتوں کی قدرکی جاتی ہے۔[دیکھئے:صحیح بخاری،امام ابو عبد اللہ محمدبن اسماعیل بخاری،باب من صام رمضان ایمانا واحتساباونیۃ،حدیث نمبر:1802،دارابن کثیر،یمامہ،بیروت،بارسوم،سال اشاعت،1407ھ]
جب قدر کی رات آنے والی ہوتی،ہمارے آقا نبی کریم ﷺکی جولانیت بڑھ جاتی،نئی امنگ ،نیاجوش پیدا ہوجاتا، معمولات شب وروز،دیگر ایام کے مقابلہ میں بڑھ جایاکرتے۔ہماری ماں رسول کریم ﷺکی محبوبہ سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:’’كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا دخل العشر شد مئزره‘‘۔رمضان کا آخری عشرہ آتا تورسول اللہﷺ [عبادت کے لیے]کمربستہ ہوجاتے[بخاری، مرجع سابق،باب العمل فی العشر الآواخر من شہر رمضان،حدیث نمبر1920؛مسلم شریف،ابو الحسین مسلم بن حجاج قشیری، الاعتکاف باب الاجتہاد في العشر الآواخر من شہر رمضان،حدیث نمبر 1174،داراحیاء التراث العربی،بیروت ]
ایک دوسری روایت میں فرماتی ہیں:’’ ان رسول الله صلى الله عليه و سلم يجتهد في العشر الأواخر ما لا يجتهد في غيره ‘‘رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں وہ مجاہدہ اورمحنت کرتے جو دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔[مسلم،مرجع سابق،باب الاجتہاد فی العشر الآواخرمن شہر رمضان،حدیث نمبر1175] 
رسول اللہﷺ رات میں کتنی دیر سوتےتھے؟کم وبیش آدھی رات۔ نمازیں کتنی پڑھتےتھے؟چھ نمازیں ان پرفرض تھیں،نوافل کاعالم یہ تھاکہ حالت قیام میں پاؤں متورم ہوجاتےتھے۔ روزوں کاحال یہ تھاکہ ’’صوم وصال‘‘ رکھتےتھے،دانا لیتے تھے نہ پانی پیتےتھے،مسلسل روزے رکھتےتھے۔ایسی ذات شب قدر کااستقبال کرنے لیےنئے،جوش وخروش کے ساتھ تیارہیں۔عبادت ومجاہدہ کے لیے کمربستہ ہیں۔ذیل میں چندجھلکیاں پیش ہیں:

رات بھر قیام 

بخاری ومسلم نے متفقہ روایت دی ہے:رسول اللہﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں رات بھرقیام کرتے تھے۔ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہاسے’’أحيأ ليله‘‘کےالفاظ مروی ہیں۔رسول کریم ﷺ ان راتوں کے علاوہ پوری رات کبھی نہیں جاگتے تھے۔

اہل خانہ کی بیداری

رسول کریم ﷺ خود عبادت فرماتےتھے، اہل خانہ کوبھی جگاتے تھے،انہیں سجدہ ریزی کی تعلیم دیتے تھے،اپنے خالق ومالک سے رشتۂ عبودیت استوارکرنے کادرس دیتےتھے،حدیث شریف میں’’أيقظ أهله‘‘کے الفاظ واردہوئے ہیں۔طبرانی جیسے محدثین نے لکھاہے کہ:رسول اللہﷺ کی بیداری کی مہم اہل خانہ تک محدود نہیں تھی،بلکہ بیداری وعبادت گزاری کی طاقت رکھنے والے ہرخورد وکلاں کو شامل عبادت کرتےتھے،انہیں شب بیداری کا حکم کرتےتھے۔

اعتکاف کی پابندی 

رسول کریم ﷺشب قدر کی جستجو میں آخری عشرہ کا پابندی سے اعتکاف فرماتے تھے،اعتکاف آپ کا معمول بن گیاتھا، آپ اسے کبھی ترک نہیں فرماتے تھے۔اپنے جانثاروںکواعتکاف اورجستجوئے شب قدرکی رغبت دلاتے تھے،فرماتے تھے:’’رمضان کے آخری دس دنوں میں شب قدر کی تلاش کرو‘‘۔ایک روایت میں ہے’’يعتكف في العشر الأواخر يتحرى ليلة القدر فيها‘‘رسول اللہﷺ عشرئہ اخیرمیںاعتکاف کرتےاور شب قدرکی جستجوکرتےتھے۔[تطریز ریاض الصالحین،فیصل بن عبد العزیز،ج:2،ص:165،مکتبہ شاملہ]

بے پایاں سخاوت

روشنی کی رفتار،سرعت آبشار،تندی موج ولہراورتیزیِ بادصرصرسب کی پیمائش کے آلے ایجاد کئے جاچکے ہیں۔رسول کریم ﷺکے جود وسخاکوتولنے کاکوئی پیمانہ ایجادہواہےاور نہ اس کاامکان ہے۔آپ سخی تھے،فیاض تھے،دونوںہاتھوں سے دیتے تھے،جب رمضان کامہینہ آتا،قدرکی راتیں آتیں،آخری عشرہ کےایام آتے،جبرئیل امین علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کادورہ ہوتا؛نیکیوں کے ان موسم بہارمیںآپ ﷺ کی سخاوت تیزہواسے تیزترہوتی ۔’’كَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنْ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ‘‘حضرت جبرئیل ہرشب رمضان رسول اللہﷺ کے پاس آتے،قرآن کریم کادورہ کرتے،اس وقت رسول اللہﷺ تیزہواسے بڑھ کرجودوسخاکرتے۔[بخاری ،مرجع سابق، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہﷺ ،حدیث نمبر6]
شب قدراللہ عزوجل کاتحفہ ہے، فضائل کی جامع ہے، برکات کی منبع ہے-فرشتوںسے ملاقات، رب سےمناجات اور لطف و عنایات والی ہے۔یہ تحفہ رسول اکرمﷺ کی امت کوملاہے۔جامع الاحادیث میں امام سیوطی نے دیلمی سےنقل کیاہے:’’ إن الله وهب لأمتى ليلة القدر،ولم يعطها من كان قبلكم‘‘اللہ تعالیٰ نے شب قدر میری امت کودیا،ازیں قبل کسی اورکویہ شب نہیں دی گئی۔[جامع الاحادیث،امام جلال الدین سیوطی،37/6،حدیث نمبر39912،مکتبہ شاملہ]
ہمیں غورکرناچاہیے؛ سید عالم ﷺ مقبول ہیں،معصوم ہیں،بخشے بخشائے ہیں۔وہ اللہ کی خوشنودی کی تلاش میںرہتے تھے،شب قدر کی جستجومیں رہتے تھے ، جدوجہد فرماتے تھے،رات بھرمصروف عبادت رہتے تھے،اہل وعیال کوبستروںسے اٹھاتے تھے،انہیںآغوش نیندسےآغوش عبادت میںبٹھاتے تھے۔کیاانہیں ایساکرنے کی ضرورت تھی؟یقیناً نہیں تھی،وہ ہمیں تحفۂ خداوندی کی قدربتانے کےلیے ایساکرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے نمونہ ہیں۔ہمیں اللہ تعالی کی رحمت و مغفرت کی ضرورت ہے۔ لہٰذا، ہمیں اس رات کی تلاش و جستجو کرنا چاہیے اور آخری عشرہ کی راتوں کو ذکر و عبادت میں گزارنا چاہیے۔

طالب دعا
عبد الخبیر اشرفی مصباحی،متوطن:مہان خاں،بوڑھی جاگیر،اسلام پور،اتردیناجپور،9932807264

Tuesday, October 1, 2019

فارغین مدارس میں داعیانہ فکر وکردار کی ضرورت اور اس کے تقاضے


از قلم : عبد الخبیر اشرفی مصباحی، پرنسپل مدرسہ عربیہ اہل سنت منظر اسلام، التفات گنج ،امبیڈکر نگر


قرآن کریم کا مطمح نظر یہ ہے کہ دنیا کے ہر مسلمان کو اپنے دین ومذہب کا مبلغ ہونا چاہیے- اللہ عزوجل شانہ فرماتاہے:’’کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَوْ اٰمَنَ اَہْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ مِنْہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَکْثَرُہُمُ الْفٰسِقُوْنَ‘‘تم بہتر ہواُن سب اُمتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور بُرائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر کتابی ایمان لاتے تو اُن کا بھلا تھااُن میں کچھ مسلمان ہیں اور زیادہ کافر[سورئہ آل عمران :۱۱۰،ترجمہ:کنز الایمان]صاحب قرآن مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان بھی یہی ہے :’’ بلغواعنی ولوآیۃ‘‘میری طرف سے دنیا والوں کو پہنچادو اگرچہ ایک ہی بات سہی-
علماومشائخ حضرات انبیاعلیہم الصلاۃ والسلام کے نائب ووارث ہوتے ہیں ، اس لیے ان کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری بدرجۂ اتم عائد ہوتی ہے کہ وہ دنیا والوں میں دعوت تبلیغ کا فریضہ انجام دیں - قرآن کریم نے نے بھی علماومشائخ کو خصوصی ذمہ داری نبھانے کی تاکید فرمائی ہے- ارشاد ربانی ہے:’’وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً  فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ ‘‘-اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہو کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیںاس امید پر کہ وہ بچیں [سورئہ توبہ :۱۲۲، ترجمہ: کنز الایمان]
موجودہ دورمیںدعوت وتبلیغ کے سلسلے میں مدارس کا کردار
دعوت وتبلیغ کے کاموں کو قوم کے سامنے انفرادی واجتماعی دونوں طریقے سے پیش کرنے کا قرآن کریم نے نظریہ دیا ہے - لیکن اجتماعی وتنظیمی دعوت کے اندر جو خوبیاں موجود ہیں وہ کسی ذی شعور انسان سے پوشیدہ نہیں ہے - انفرادی دعوت کے سلسلے میں قرآن کریم کی اس آیت کریمہ پر غور کرنا چاہیے-’’وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللہِ وَ عَمِلَ صٰلِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘-اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں-[سورئہ حم سجدہ ۳۳، ترجمہ کنز الایمان] رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ عن ابی سعید رضی اللہ عنہ قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول :’’ من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذالک أضعف الایمان‘‘حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا کہ تم میں جو شخص خلاف شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اسکی اصلاح کرے اگر طاقت نہ رکھتاہو تو زبان سے اسکو روکے اگر اسکی بھی طاقت نہ رکھتاہو تو دل سے اسکو براجانے یہ ایمان کا کمزورترین درجہ ہے-
انفرادی تبلیغ سے زیادہ کارآمد تنظیمی تبلیغ ہوتی ہے - تنظیمی سطح پر جو کام ہوگا اسکے اثرات ونتائج دوررس ہوں گے - قرآن کریم نے مبلغین کی تنظیم سازی کا حکم اس انداز میں دیاہے -’’وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْن‘‘اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بُری سے منع کریں اور یہی لوگ مُراد کو پہنچے [سورئہ آل عمران:۳، ترجمہ: کنز الایمان]ایک دوسری آیت میں یوں ارشاد ہے-’’وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً  فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ‘‘-اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہو کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیںاس امید پر کہ وہ بچیں [سورئہ توبہ :۱۲۲ترجمہ: کنز الایمان]
مذکورہ آیتوں میں قرآن کریم کا منشایہ ہے کہ دعوت وتبلیغ اور دین سکھانے کے لیے مومنوں میں سے کچھ لوگوں پر مشتمل ایک جماعت یا تنظیم ہونی چاہیے اور اہل ایمان میں سے کچھ لوگوں کو تعلیم دین کے لیے نکلتے رہنا چاہیے - ماضی میںدعوت وتبلیغ کے میدان میں مدارس اسلامیہ نے بڑا اہم کردار ادا کیاہے -اسلاف کرام نے اسلامی پیغام رسانی کے لیے مدارس ومساجد کو ایک بڑے پلیٹ فارم کے طور استعمال کیاہے-یہ کام مدارس اسلامیہ چاہیں تو اب بھی بخوبی انجام دے سکتے ہیں - مدارس کے پا س اس کے لیے اہل افراد بھی ہیں اور فنڈ بھی ہے- لیکن حرماں نصیبی یہ ہے کہ ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کے اس وسیع نیٹ ورک میں شاید ہی کوئی مدرسہ ایسا ہو جو دعوت وتبلیغ کے لیے دیہی وشہری علاقوں میں قافلے روانہ کرتے ہوں - مطبخ ، مدرسین کی تنخواہ ، تعمیر عمارات وغیرہا کی طرح دعوت وتبلیغ کے لیے الگ سے بجٹ مختص کرتے ہوں بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان مدارس کے قیام میں دعوت وتبلیغ کا جذبہ کارفرماہی نہیں ہوتا - بانیان مدارس کے نیت وارادے میں صرف دینی ومذہبی تعلیم کا رسمی فروغ وارتقاکا جذبہ شامل ہوتاہے اور بس-شاید یہی وجہ ہے کہ فارغین مدارس اسلامیہ اساتذہ واراکین کی مساعی جمیلہ اورانکی شفقت ومہر بانی سے بہترین مدرس اور اپنی ذاتی لگاو ولگن اور خداد داد نعمتوں کے سہارے بہترین خطیب اورعمدہ مقررومحرر تو بن جاتے ہیں مبلغ وداعی نہیں بن پاتے -فارغین مدارس اسلامیہ کے خطیب ومقرر بن جانے کا انتساب ہم نے اراکین واساتذہ کی طرف اس لیے نہیں کیا کہ تقریر وتحریر کے میدان میں بھی اکثر مدارس میں طلبہ کی مشق وتمرین کی طرف کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی اس کے لیے کوئی نصاب وقواعد زیردرس ہوتے ہیں بلکہ اس کے لیے طلبہ خود انجمنیں قائم کرتے ہیں خود ہی ان کے صدر وسکریٹری ہوتے ہیں اور خود ہی مصلح ومبصر - اساتذہ واراکین کو نہ انکی تقریروں میں میں غلطیوں کی اصلاح کاخیال ہوتاہے اور نہ ہی ان کی تحریروں میں نکھار پیداکرنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے - ایسے عالم میں فارغین مدارس اسلامیہ کو اگر ہم بشکل مبلغین ودعاۃ دیکھنا چاہیں تو یہ سوائے حسن ظن کے اور کچھ بھی نہیں-
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
کہ تیرے بحرکی موجوں میںاضطراب نہیں
مذکورہ گفتگو سے ہمارہ مقصد ہر گز یہ ہے کہ سارے بانیان مدارس ایک ہی صف میں کھڑے ہیں اور جملہ اساتذئہ مدارس اسلامیہ ایک ہی میدان کے شہسوار ہیں بلکہ ان میں بعض یقینا ایسے ہوں گے جو ہمہ جہت مقاصد کے تحت کسی مدرسہ کی بنیاد رکھتے ہوں گے اور وہ اپنے مقاصدکی تکمیل کے لیے جد وجہد بھی کرتے ہوں گے مگر ان کو خاطرخواہ نتیجہ اس لیے نہیں مل پاتا کہ یہ ان کی شخصی کاوش ہوتی ہے جبکہ دعوت وتبلیغ کا کام تنظیمی واجتماعی کاوشوںکا متقاضی ہے -اور قرآن کریم نے ان ہی کاوشوںپر کامیابی کی بشارت دی ہے-
دور حاضر میں فارغین مدارس کے اندر دعوتی عنصر کا فقدان؟
اصحاب دعوۃ وتبلیغ کی اصل فیکٹری دینی ومذہبی درسگاہیں ہی ہیں- یہی سے مبلغین ودعاۃ تیارہوتے رہے ہیں-اور آج بھی بقول وبزعم خویش ہرخطیب وامام، مقرر ومحرر اور معلم ومدرس علمائے کرام دعوت وتبلیغ ہی کا کام انجام دے رہے ہیں - پھر بھی ان کے عمل کو دعوت وتبلیغ اور انکو مبلغ وداعی تسلیم نہیں کیا جاتا؟ یہ نہایت حیرت انگیز اور دلچسپ معاملہ بلکہ معمہ ہے! اس معاملہ یا معمہ کے حل کے لیے اس کے اسباب ووجوہات کی تلاش وجستجوکی جانی چاہیے-
برگ حنا پہ لکھتاہوں درد دل کی بات
شاید کہ رفتہ رفتہ لگے دل ربا کے تھ
٭ خطابت وامات ، تحریر وتقریر اور تعلیم وتدریس کے معنی کے اندر دعوت وتبلیغ کے معنی کی ’’تضمین‘‘ تھی اس لیے ہر خطیب وامام، محرر ومقرر اور معلم ومدرس کو داعی ومبلغ سمجھا جاتاتھا- اب دعوت وتبلیغ دین کا الگ شعبہ بن گیاہے - ضرورت زمانے کے پیش نظر اس شعبہ کی طرف مستقل توجہ دینے کی اہمیت بڑھ گئی ہے - شاید یہی وجہ ہے کہ دانشوروںنے دعوت وتبلیغ کو ایک الگ اصطلاح کے طور پر دیکھنا شروع کردیاہے اور اس کے لیے مستقل طور پر جماعتیں وتنظیمیںمیدان عمل میں آرہی ہیں - بلفط دیگرخطابت وامامت، تحریر وتقریر اور تعلیم وتدریس کے الفاظ سے دعوت وتلیغ کے معنی کی ’’تجرید‘‘ کر لی گئی ہے-
٭ دعوت وتبلیغ کا کام اخلاص پر مبنی ہے، اس کے لیے قوم سے کوئی اجرت طلب نہیں کی جاتی ہے - ہمارے اسلاف کا بھی یہی وطیرہ رہاہے- قرآن کریم نے بھی یہی نظریہ پیش کیاہے- فرمان الہی ہے-’’وَمَآ اَسْـَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘اور میں تم سے کچھ اس پر[تبلیغ دین پر]اُ جرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے [سورئہ شعراء:۱۴۶، ترجمہ کنز الایمان]خطابت وامامت اور تعلیم وتدریس وغیرہا دینی امورپر پہلے اجرت نہیں لی جاتی تھی اور شرعایہ ناجائز وحرام بھی تھا- مگر حالات زمانہ کے بدلنے سے مسائل میں بھی تبدیلی واقع ہوئی اور دین متین کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے علمائے متأخرین نے خدمت دین پر اجرت کے جواز کا فتوی صادر فرمایا-رفتہ رفتہ موجودہ دور میں خدمت دین کا کام تقریبا پیشہ کی حیثیت میں آگیا اور اس پر اجرت ومعاوضہ مقصد اعظم بن گیا - اخلاص وللہیت دلوںسے رخصت ہوچکی -اب تو حال یہ ہے کہ منچاہی تنخواہوں کے بغیر باصلاحیت مدرسین درسگاہوں کی زینت بنناپسند نہیں کرتے اور منہ مانگے نذرانے کے بغیر شیریں بیان خطیب رونق اسٹیج نہیں ہوتے-شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میںپیشہ ورعلماوخطباکو لوگوں نے دعاۃ ومبلغین میں شمار کرناچھوڑدیاہے-
کس طرح ہوا کند تیرا نشتر تحقیق
ہوتے کیوں نہیں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
٭ تعلیم وتعلّم کا مقصد انسان کو صالح بندہ بنانا، دین ومذہب کا بے لوث خادم بنانا اور لوگوں کی اصلاح کرنا ہے-اس کی پہلی سیڑھی اخلاص نیت ہے- اس لیے ہمارے اسلاف کرام نے ایمان واسلام کے ساتھ ’’احسان‘‘ کی تعلیم کا خصوصی اہتمام فرمایاکرتے تھے- تاکہ طالبان علوم نبویہ بوقت فراغت زیور علم سے آراستہ وپیراستہ ہونے کے ساتھ احسان وتزکیہ کے زیور سے بھی مزین ہو کر مدرسوں سے نکلیں- بعض حضرات علوم ظاہرہ کی تکمیل کے بعد برسوں کسی مرشد کی صحبت میں رہ کرباطنی علوم [احسان] کی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے - پھر مسند درس وتبلیغ لگاتے تھے اور ارشاد وبیان کی بساط بچھاتے تھے- اب حالات یکسر بدل چکے ہیں - تعلیم کی مقصدیت میں تبدیلی آچکی ہے- والدین کی نیت میں بہترمعاش، اساتذہ کی نیت وارادے میں اچھی صلاحیت ولیاقت اور طلبہ کاہدف سستی شہرت ودولت ہے-ان مقاصد کے حصول کے لیے جو تعلیم حاصل کی جائیگی اس سے دنیاتو کمائی جاسکتی ہے دین کی خدمت نہیںکی جاسکتی -
موجودہ دور میں فارغ ہونے والے طلبہ سے دین کی خدمت اور دعوت وتبلیغ کا کام لینے کے لیے اپنے منہج سے ہٹ کر کچھ اور سوچنے وکرنے کی ضرورت ہے- دین کا اہم رکن ’’احسان ‘‘ جوہماری عملی زندگی کے ساتھ ساتھ درس وتدریس کے مواد سے بھی رخصت ہوچکاہے اسے واپس لانے کی ضرورت ہے-طلبہ کے اندر مذہب وملت کی خدمت کا جذبہ بیدارکرنے کے لیے اسلاف کی سیرت وسوانح اور توکل وللہیت کی تعلیم کو فروغ دینے کی ضرورت ہے-علماوطلبہ کوبیش ازبیش مشاہرہ ووظیفہ دے کر دنیاسے فارغ کرکے دین کی خدمت میںلگانے کی ضرورت ہے- مختصریہ کہ مجدد ملت اعلی حضرت مولانا الشاہ احمد رضا خان علیہ الرضوان کے’’ دس نکاتی پروگرام‘‘کو مکمل طور نافذ کئے جانے کی ضرورت ہے - انشاء اللہ تعالی مدارس کے قیام، طلبہ کا تعلّم اور مدرسین کی تعلیم کا صحیح مقصد حاصل ہو جائے گا-
غیر تعلیم یافتہ اوردیہاتی عوام میں دعوت وتبلیغ
دعوت وتبلیغ کا دائرہ بہت وسیع ہے اور امت مسلمہ کی پوری نسل انسانیت بلکہ نسل آدم علی نبینا وعلیہ السلام کا ہر فرد اس کا مخاطب ہے-لیکن یہ کسی فرد یاتنظیم کی بس سے باہرہے کہ پوری انسانی آبادی تک اپنی دعوت پہنچاسکے - اس لیے دعوت کے کام کے لیے زمرہ بندی بہت ضروری ہے-پوری انسانی آبادی کو جنس، تعلیم، مذہب وملت، عمر،رواج ورسوم بودوباش اور علاقوں کے اعتبار سے کئی زمروں میں تقسیم کیاجاسکتاہے- پھر ان زمروں کی زبان وبیان کا تجزیہ اور ضروریات ولحاظات کا تخمینہ لگاکر دعوت وتبلیغ کا کام کیا سکتاہے-
ہمارا مشاہدہ ہے کہ شہری زندگی کی ضرورتیں دیہاتی زندگی کی ضرورتوں سے مختلف ہوتی ہیں-دونوں علاقوں کے رواج ورسوم الگ الگ ہوتے ہیں - تعلیم کی فیصد بھی دونوں جگہوں پر یکسانیت نہیں ہوتی-تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ افراد کی طرز زندگی میں بھی یکسانیت نہیں ہوتی -جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال جس پیمانے پرتعلیم یافتہ لوگوں اور شہروں میں کیاجاتاہے غیر تعلیم یافتہ لوگوں اور دیہاتوں میں اس پیمانے پر ان کا استعمال نہیں کیاجاتا- اس نوعیت کے بہت امتیازات شہری ودیہاتی زندگی کے مابین غور کرنے سے نمایاں ہوتے ہیں- لہذا فطری بات ہے کہ دونوں علاقوں میں تبلیغ ودعوت کا کام ایک ہی طرز سے انجام دینااور اس کے مطلوبہ نتائج کی امید رکھنا بے معنی سی بات ہوگی-
دیہی علاقوں میں دعوت وتبلیغ کے لیے یہ طریقے مؤثر ہوسکتے ہیں:
٭ مذہبی اجتماع، رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ،صحابہ وصالحین کی سیرت وسوانح کی محفلیں-
٭ ذاتی ملاقاتیں-
٭ پنچ وقتہ نمازوں کے بعد درس قرآن وحدیث-
٭ مذہبی وعصری تعلیم گاہوں میںعلم حاصل کرنے والوں بچوںاوران کے والدین وسرپرستوںکی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیںدین کی طرف مائل کرنے کی کوشش -وغیرہ
انسان جب غیر تعلیم یافتہ ہواور ساتھ ہی دیہاتی سماج سے وابستہ بھی ہو ،شہری سماج وتہذیب کا کوئی حصہ اسے نصیب نہ ہواہوتوایسے لوگوں سے بہت سنبھل کر نرم خوئی سے میل جول رکھنے کی ضرورت ہے- اور جب ایک داعی اسلام کے لیے ایسے افراد ہدف اور ٹارگیٹ بن جائیں تو اسکی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے -ایسے افراد کی غلطیوں کو نظر انداز کردینا چاہیے ، حکمت ودانائی کے ساتھ حسین ودلکش انداز میں اپنے مواد کو ان کے سامنے رکھنا چاہیے اور اس کی دلجوئی کرتے رہناچاہیے- اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل ہمارے لیے مشعل راہ ہے-عن عبد اللہ ابن عباس قال :دخل أعرابی علی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم المسجد وھو جالس،فقال: أللھم اغفرلی ولمحمد ولاتغفر لأحد معنا-قال: فضحک رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ثم قال:’’لقد احتظرت واسعا‘‘ثم ولی الأعرابی حتی اذاکان فی ناحیۃ المسجدفحج لیبول فقال الاعرابی بعد أن فقہ الاِسلام:فقام الی  رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فلم یؤنبنی ولم یسبنی وقال:’’اِنما بنی ھذا المسجد لذکر اللہ والصلوۃوانہ لایبال فیہ ‘‘ثم دعابسجل من ماء فافرغہ علیہ-[صحیح ابن حبان، حدیث نمبر۱۷۵۶]
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماکہتے ہیں ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اس وقت آپ مسجد میں رونق افروز تھے-اس دیہاتی نے کہا: اے اللہ! میری اور محمد[ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم] کی مغفرت فرمااور ہمارے ساتھ کسی کی مغفرت نہ فرمانا-اس کی اس دعاپر اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے مسکرایا اور فرمایا: تم نے کشادگی میں تنگی اختیار کرلی-پھر وہ دیہاتی واپس چل دیا، جب وہ مسجد کے کنارے پہنچاتو وہیں پیشاب کرنے بیٹھ گیا-جب وہ دیہاتی کو اسلام سمجھ میں آگیاتو وہ خود بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے- آپ نے نہ مجھے ڈانٹااور نہ برابھلا کہابلکہ ایک بالٹی پانی منگواکر بہادیااور فرمایا: یہ مسجد اللہ عزوجل کے ذکر اور نماز کے لیے بنائی کی گئی ہے، مسجدجائے پیشاب نہیں ہے- قرآن کریم میں اللہ عزوجل فرماتاہے :’’فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَہُمْ  وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ  فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ  فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ  اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ ‘‘تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لئے نرم دل ہوئے اور اگر تم مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہوجاتے تو تم انہیں معاف فرماؤ اور ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو بے شک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں[سورئہ آل عمران: ۱۵۹، ترجمہ، کنز الایمان]
مختصراً یہ ہے کہ دیہی علاقوں میںغیر تعلیم یافتہ افراد میں دعوت کے لیے طلبہ کو بنیادی علم دین کے ساتھ اخلاص ایثار، صبر وتحمل، اعلی ظرفی وخوش مزاجی، بحث وتکرار وخودنمائی سے اجتناب،مخاطب کی دلجوئی وحوصلہ افزائی اور ذاتی روابط وملنساری کو مضبوط کرنے کی سخت ضرورت ہوتی ہے-
عصری تعلیم یافتہ اوردشہری عوام میں دعوت وتبلیغ
شہری علاقوں میں دعوت کے یہ طریقے مؤثر ہوسکتے ہیں:
٭ پنج وقتہ نمازوں اور نماز جمعہ کے بعد درس قرآن وحدیث-
٭ اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم طلبہ واسکالرزاور درس دینے والے اساتذہ کے درمیان اسلامی توسیعی خطابات-
٭ مذکورہ طلبہ کے لیے سمر کلاسیز اور معلمین کے لیے ورک شاپ-
٭ جدید ذرائع ابلاغ مثلاانٹرنیٹ، ٹیلی ویژن ،SMS,MMS,CD,DVDوغیرہ کے ذریعے اسلامی پیغامت کی ترسیل-
٭ آن لائن رابطہ[مثلا:چیٹنگ وویڈیوکالنگ]
٭ ذاتی ملاقاتیں-
٭ سوال جواب کی محفلیں، خاص عنوان وموضوع پر سمینار وسمپوزیم اور دینی ومذہبی جلسے وغیرہ-
دیہی وشہری علاقوں میں دعوت وتبلیغ کے لیے مذکورہ طریقوں کے علاوہ اور دیگرذرائع کا استعمال بھی ممکن ہے- ہم نے صرف چند طریقے اس نظریہ کے ساتھ درج کئے ہیں کہ دونوں علاقوں کے امتیازات کا لحاظ کرتے ہوئے جہاںدعوت کے طریقے الگ الگ ہوسکتے ہیں،وہیں اس بات کا خیال بھی رکھا جانا ضروری ہے کہ دونوں علاقوں کے مبلغین کے اوصاف میں بھی فرق ہوناچاہیے- اس کی وجہ یہ ہے کہ مردم شماری ودیگر فلاحی وسماجی تنظیموں کی سروے رپورٹس سے عیاں ہوتا ہے کہ شہری ودیہاتی علاقوں کے باشندوں میں رہن سہن کے ساتھ ساتھ بنیادی تعلیم واعلی تعلیم میں نمایاں فرق ہے - شہروں میںتعلیم یافتہ لوگ زیادہ ہیں - اور قرآن کریم کی نظر میں تعلیم یافتہ وغیر تعلیم یافتہ افراد دونوں برابر نہیں ہیں- اللہ فرماتاہے:’’ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ  اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبٰبِ‘‘ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان نصیحت تو وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں [سورئہ زمر:۹، ترجمہ کنز الایمان]غیر تعلیم یافتہ لوگوں سے حجت بازی کرنے سے قرآن کریم نے منع فرمایا ہے ، ان سے انداز میں بات چیت کرنے کی تلقین کی ہے کہ ان کے سادہ دلوں کو کسی طرح کی تکلیف نہ ہونے پائے- اللہ فرماتاہے:’’اِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ‘‘اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس سلام- [سورئہ فرقان:۶۳، ترجمہ کنز الایمان]لیکن قرآن کریم جب تعلیم یافتہ افرادمثلاعلمائے یہود ونصاری کی بات کرتاہے تو ’’آیات‘ ‘،بینات‘‘اور’’برھان‘‘ کی بات کرتاہے-
یہ بات بھی مسلم ہے کہ عصری تعلیم یافتہ افراد کے افکار وخیالات یکساں نہیں ہوتے ، تاریخ اورجغرافیہ میں مہارت رکھنے والے افراد سائنس اور انجینئرنگ میں مہارت رکھنے والے افراد کے خیالات یکساں نہیںہوسکتے ، ہر ایک علم کے حامل افراد کے سوچنے سمجھنے کا معیار جداگانہ ہوتاہے ، اس لیے ان حضرات میں دعوت وتبلیغ کا کام تھوڑا دشوار ہے- مگر مواقع بھی یہی پر زیادہ ہیں کہ ان افراد کے اندر سنجیدگی ومتانت زیادہ ہوتی ہے ان کو سمجھانا بہت حد تک آسان ہوتاہے-
ایسے اشخاص تک رسائی حاصل کرنے کے بعد داعی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ پہلے مدعو شخص کی نفسیات کو پرکھنے کی کوشش کرے پھر اسکے فن اور موضوع کے موافق گفتگو کا آغاز کرے - اگر مدعوشخص علم طب سے دلچسپی رکھتاہے تو جسم کی تخلیق ، اعضاوجوارح کی خصوصیات اور ان کے اندر اللہ عزوجل کی رکھی ہوئی ہزاروں صلاحیتیوں میں سے کسی ایک کااس انداز میں ذکر کرے کہ مدعوڈاکٹر وطبیب متأثر نہیں تو کم از کم خوش ضرورہوجائے - اسی طرح اگر مدعو شخص آرٹ کا ماہر ہے-تو اس کے سامنے کائنات کی رنگا رونہال، خوب صورتی وجمال مختلف النوع پرندوں ، جانوروں کیڑے مکوڑوں اور انکی تخلیق میں خالق کائنات کے بے انتہاکمال کا ذکر کرکے مدعو آرٹسٹ کو متأثر کیا جاسکتاہے - اور اپنی دعوت اس کے سامنے بحسن وخوبی پیش کی جاسکتی ہے-
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز
کبوتر باکبوتر باز باباز
عصری تعلیم یافتہ مدعو شخص کر اگر مسلمان ہے تو داعی کو بہت حد تک پیغام رسانی میں آسانی ہوجاتی ہے ورنہ بڑی محنت وکاوش کرنی پڑتی ہے- داعی اسلام اگر ہمت سے کام لے اور پیغام اسلام کو منطقی انداز اور دلائل کے ساتھ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے پیش کرنے میں کامیاب ہوجائے تو امید ہے کہ اسکی محنت وکاوش رنگ لائے گی - کیوںکہ دنیاوی تعلیم یافتہ طبقہ جہاں مواد اور انداز جدید تقاضوں کے موافق دیکھتے ہیں تو اسکی طرف جلد مائل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں-اللہ تعالی فرماتاہے:’’اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجٰدِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ‘‘اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤپکّی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو[سورئہ نحل:۱۲۵، ترجمہ کنز الایمان]
مختصراً یہ ہے کہ تعلیم یافتہ وشہری تہذیب کے حامل افراد میں دعوت کے لیے طلبہ کو بنیادی علم دین، اخلاص وایثار، صبر وتحمل، اعلی ظرفی وخوش مزاجی، بحث وتکرار وخودنمائی سے اجتناب،مخاطب کی دلجوئی وحوصلہ افزائی اور ذاتی روابط وملنساری کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے-خصوصا جدید ذرائع ووسائل کا استعمال، مخاطب کی نفسیات اور دلچسپیوں سے واقفیت، اسلام کی آفاقیت اور جامعیت کا تصور ، دوستانہ وپاکیزہ ماحول سازی اور اپنے پیغام کی حقانیت کا پر غیر متزلزل یقین وغیرہ کے ہتھیاروں سے طلبہ کو لیس کرنے کی ضرورت ہے-
سوال نامے میں نصاب سے متعلق جن باتوں پر اظہار خیال کرنے کے لیے کہاگیاہے- راقم الحروف اس سلسلے اپنے خیالات کو خیال ہی میں رکھنا مناسب خیال کرتاہے -

Thursday, October 18, 2018

مسلمانوں کے مسائل

مسلمانوں کے مسائل 

کستاخانہ خاکون کی اشاعت کے تناظر میں

عالمی تناظرمیں امت مسلمہ کے سامنے چیلنجوں کا انبارہے،ان میں بعض عالمی اور بعض ملکی ہیں ،اسی طرح بعض داخلی اوربعض خارجی ہیں۔
عالمی خارجی چیلنجوں میں سب سے بڑاچیلنج تبشیری مشنری کا ہے جس کا دائرئہ کا رنہایت منظم جد وجہد کے ساتھ عالمی پیمانے پر ہے، وہ غیر عیسائی طریقہ سے عیسائی عقیدے کی طرف لوگوں کو مائل کرنے میں لگے ہوئے ہیں، آپسی فکری اختلافات سے ان کا مشن متأثر نہیں ہوتا،ضرورت پڑنے پر وہ اپنے مخالفین سے بھی اشتراک عمل کرنے میں گریزنہیں کرتے ، وہ پوری دنیامیں مشنری اسپتالوں او راسکولوں کے ایسے جال بچھارکھے ہیں جن میں غیرعیسائیوں کو وہ بآسانی پھانس لیتے ہیں، ان کے دام تذویر میں زیادہ تر مسلمان پھنستے ہیں کیوں کہ مسلمانوں کے پاس تبشیری مشنری کے وسائل کے مقابلے میں عشرعشیر وسائل بھی مہیا نہیں ہیں۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے مسلمانوں کو ان سے بہتروسائل سے آراستہ ہونا ضروری ہے۔
عالمی داخلی چیلنجوں میں سب سے بڑاچیلنج یہ ہے کہ مسلمانوں میں خوب سے خوب ترکی تلاش اورمسلسل ترقی کرنے کی خواہش ماند پڑچکی ہے، ان میں فکری جمود وتعطل نے بسیراکرلیا ہے۔سائنس اورٹیکنالوجی کی عمومی اوراعلیٰ تعلیم کے دروازے انہوں نے اپنے لیے بند کرلیے ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ معاشرے میں سب سے زیادہ عزت، تعلیم، تحقیق ، دریافت اوراس سے وابستہ افراد کی ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ صنعتی ، زرعی ، طبی ،دفاعی وغیرہ میدانوں میں جدید ترین علم پردسترس حاصل کریں۔ اس کے بغیرحقیقی معنوں میں اپنی آزادی برقراررکھنا تقریباً نا ممکن ہے۔
مسلمانوں کو اندرون ملک بہت سے چیلنجوں کا سامناہے ، ان میں سب سے بڑاخارجی چیلنج ہم وطنوں کا تعصبانہ وجارحانہ اقدام ہے جس سے مسلمانوں کی شناخت اوروجود دونوں خطرے میں ہے۔ میری اپنی رائے یہ ہے کہ اس خطرناک اقدام سے محفوظ رہنے کے لیے مسلمانوں کو عدم تشدد کی راہ اختیارکرنی چاہیے ،غیرمسلموں سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش اور سیاسی میدان میں صحیح حکمت عملی اختیارکرنی چاہیے۔ ہرمسئلے کوآئین وقانون اورانصاف وضمیرکی دہائی دے کر اپنا موقف واضح کرناچاہیے۔ جن مسائل میں مسلمان ظلم کے شکارہور ہے ہیں ان میں واقعی اپنی مظلومیت دنیا کے سامنے پیش کرنی چاہیے،ممکن ہے اس طریقۂ کارسے باضمیرلوگوں کی ہمدردیاں حاصل ہوسکیں گی اور عالمی پیمانے پرحکومتی اہل کاروں پر دباؤ بن پائے گا۔
اندرون ملک مسلمانوں کا سب سے بڑاداخلی چیلنج ان کا آپسی انتشاروافتراق ہے۔اس کاخاتمہ کیسے ممکن ہو؟ اس کو لے کرسرجوڑکربیٹھنے کی ضرورت ہے۔ہم اپنی کمزوریوں کاتجزیہ کرنے کے بجائے اس وہم کاشکارہوگئے ہیں کہ ہمارے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ ہرمعاملے میں دوسروں کومطعون کرنے ، دوسروں کوالزامات دینے اوراپنی مصیبتوں کے لیے دوسروں کوذمہ دارٹھہرانے کی نفسیات ہمارے اندر سرایت کرچکی ہیںجس کی وجہ سے دوریاں بڑھتی جارہی ہیں۔ہم کوان نفسیات سے اوپر اٹھ کر بنام سنیت جینے مرنے کا عہد لینا ہوگا۔آج مسلمان دنیا کی دوسری بڑی مذہبی آبادی ہیں مگر مسائل کے اعتبار سے دنیا کی پہلی بڑی آبادی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جدید دنیا کے سامنے مسلمان اسلام کوایک قابل عمل اور قابل قبول حقیقت کے طور پر پیش کرنے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ دنیا مذہب اسلام کو ایک چیلنج طوردیکھ رہی ہے۔


Sunday, September 9, 2018

کس سے اس درد مصیبت کا بیاں ہوتا ہے
 آنکھیں روتی ہیں، قلم روتا ہے، دل روتا ہے

افسوس صد افسوس کہ آج مؤرخہ ۲۰ جولائی ۲۰۱۸بعدنماز مغرب ہمارے درمیان سے وارث علوم اعلی حضرت ،جانشین حضورمفتی اعظم ہند ،تاج الشریعہ سیدی مولانا الشاہ الحاج مفتی اختررضاخان ازہری رضوی علیہ الرحمہ داعی اجل کو لبیک کَہ گئے اورہم سب کو روتا بلکتا اور سسکتا چھوڑ کر راہی جنت ہوئے۔ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ-موت بر حق ہے، اس سے کسی کوراہ فرار نہیں، جس نے بھی اس دنیائے ہست و بود میں قدم رکھا ہےاسے ایک نہ ایک دن گوشۂ قبر کی تنہائی کا سامنایقیناً کرنا پڑے گا۔اس دنیا کا دستور یہی ہے کہ آئے دن کوئی نہ کوئی بچھڑتا ہےاوراپنے خویش واقارب کو داغ مفارقت دے جاتاہے۔
سیدی تاج الشریعہ کی وفات حسرت آیات ایسا عظیم سانحہ ہے جس کی بھر پائی اس قحط الرجال کے دور میں ناممکن ساہے، علم و حکمت سے لبریزرہنے کے باوجود آپ نےملک وبیرونی ملک اتنے تبلغی اسفارکئے ہیں اوردین وسنیت کا وہ کام کیاہے کہ یقینا ًعلم و حکمت خودآپ پر نازاں ہے۔
 لہٰذا ہم لوگ انتہائی غم و اندوہ کے ساتھ اولاد کو باپ کی، بھائی کو بھائی کی، دوست کو دوست کی، عزیز کو ایک عزیز کی تعزیت پیش کرتے ہیںاور دعاکرتے ہیں کہ رب قدیر حضرت کو اپنے جوار عزت و جلال میں جگہ دے ،جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاکرےاور ان کے ورثہ خصوصاً حضرت مولانا عسجدرضاخان صاحب کو صبر جمیل مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین۔
یکے ازسوگوراں
عبد الخبیر اشرفی مصباحی      
صدرالمدرسین دار العلوم اہل سنت منظر اسلام
التفات گنج امبیڈکر نگر
9932807264