Thursday, October 18, 2018

مسلمانوں کے مسائل

مسلمانوں کے مسائل 

کستاخانہ خاکون کی اشاعت کے تناظر میں

عالمی تناظرمیں امت مسلمہ کے سامنے چیلنجوں کا انبارہے،ان میں بعض عالمی اور بعض ملکی ہیں ،اسی طرح بعض داخلی اوربعض خارجی ہیں۔
عالمی خارجی چیلنجوں میں سب سے بڑاچیلنج تبشیری مشنری کا ہے جس کا دائرئہ کا رنہایت منظم جد وجہد کے ساتھ عالمی پیمانے پر ہے، وہ غیر عیسائی طریقہ سے عیسائی عقیدے کی طرف لوگوں کو مائل کرنے میں لگے ہوئے ہیں، آپسی فکری اختلافات سے ان کا مشن متأثر نہیں ہوتا،ضرورت پڑنے پر وہ اپنے مخالفین سے بھی اشتراک عمل کرنے میں گریزنہیں کرتے ، وہ پوری دنیامیں مشنری اسپتالوں او راسکولوں کے ایسے جال بچھارکھے ہیں جن میں غیرعیسائیوں کو وہ بآسانی پھانس لیتے ہیں، ان کے دام تذویر میں زیادہ تر مسلمان پھنستے ہیں کیوں کہ مسلمانوں کے پاس تبشیری مشنری کے وسائل کے مقابلے میں عشرعشیر وسائل بھی مہیا نہیں ہیں۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے مسلمانوں کو ان سے بہتروسائل سے آراستہ ہونا ضروری ہے۔
عالمی داخلی چیلنجوں میں سب سے بڑاچیلنج یہ ہے کہ مسلمانوں میں خوب سے خوب ترکی تلاش اورمسلسل ترقی کرنے کی خواہش ماند پڑچکی ہے، ان میں فکری جمود وتعطل نے بسیراکرلیا ہے۔سائنس اورٹیکنالوجی کی عمومی اوراعلیٰ تعلیم کے دروازے انہوں نے اپنے لیے بند کرلیے ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ معاشرے میں سب سے زیادہ عزت، تعلیم، تحقیق ، دریافت اوراس سے وابستہ افراد کی ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ صنعتی ، زرعی ، طبی ،دفاعی وغیرہ میدانوں میں جدید ترین علم پردسترس حاصل کریں۔ اس کے بغیرحقیقی معنوں میں اپنی آزادی برقراررکھنا تقریباً نا ممکن ہے۔
مسلمانوں کو اندرون ملک بہت سے چیلنجوں کا سامناہے ، ان میں سب سے بڑاخارجی چیلنج ہم وطنوں کا تعصبانہ وجارحانہ اقدام ہے جس سے مسلمانوں کی شناخت اوروجود دونوں خطرے میں ہے۔ میری اپنی رائے یہ ہے کہ اس خطرناک اقدام سے محفوظ رہنے کے لیے مسلمانوں کو عدم تشدد کی راہ اختیارکرنی چاہیے ،غیرمسلموں سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش اور سیاسی میدان میں صحیح حکمت عملی اختیارکرنی چاہیے۔ ہرمسئلے کوآئین وقانون اورانصاف وضمیرکی دہائی دے کر اپنا موقف واضح کرناچاہیے۔ جن مسائل میں مسلمان ظلم کے شکارہور ہے ہیں ان میں واقعی اپنی مظلومیت دنیا کے سامنے پیش کرنی چاہیے،ممکن ہے اس طریقۂ کارسے باضمیرلوگوں کی ہمدردیاں حاصل ہوسکیں گی اور عالمی پیمانے پرحکومتی اہل کاروں پر دباؤ بن پائے گا۔
اندرون ملک مسلمانوں کا سب سے بڑاداخلی چیلنج ان کا آپسی انتشاروافتراق ہے۔اس کاخاتمہ کیسے ممکن ہو؟ اس کو لے کرسرجوڑکربیٹھنے کی ضرورت ہے۔ہم اپنی کمزوریوں کاتجزیہ کرنے کے بجائے اس وہم کاشکارہوگئے ہیں کہ ہمارے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ ہرمعاملے میں دوسروں کومطعون کرنے ، دوسروں کوالزامات دینے اوراپنی مصیبتوں کے لیے دوسروں کوذمہ دارٹھہرانے کی نفسیات ہمارے اندر سرایت کرچکی ہیںجس کی وجہ سے دوریاں بڑھتی جارہی ہیں۔ہم کوان نفسیات سے اوپر اٹھ کر بنام سنیت جینے مرنے کا عہد لینا ہوگا۔آج مسلمان دنیا کی دوسری بڑی مذہبی آبادی ہیں مگر مسائل کے اعتبار سے دنیا کی پہلی بڑی آبادی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جدید دنیا کے سامنے مسلمان اسلام کوایک قابل عمل اور قابل قبول حقیقت کے طور پر پیش کرنے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ دنیا مذہب اسلام کو ایک چیلنج طوردیکھ رہی ہے۔


Sunday, September 9, 2018

کس سے اس درد مصیبت کا بیاں ہوتا ہے
 آنکھیں روتی ہیں، قلم روتا ہے، دل روتا ہے

افسوس صد افسوس کہ آج مؤرخہ ۲۰ جولائی ۲۰۱۸بعدنماز مغرب ہمارے درمیان سے وارث علوم اعلی حضرت ،جانشین حضورمفتی اعظم ہند ،تاج الشریعہ سیدی مولانا الشاہ الحاج مفتی اختررضاخان ازہری رضوی علیہ الرحمہ داعی اجل کو لبیک کَہ گئے اورہم سب کو روتا بلکتا اور سسکتا چھوڑ کر راہی جنت ہوئے۔ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ-موت بر حق ہے، اس سے کسی کوراہ فرار نہیں، جس نے بھی اس دنیائے ہست و بود میں قدم رکھا ہےاسے ایک نہ ایک دن گوشۂ قبر کی تنہائی کا سامنایقیناً کرنا پڑے گا۔اس دنیا کا دستور یہی ہے کہ آئے دن کوئی نہ کوئی بچھڑتا ہےاوراپنے خویش واقارب کو داغ مفارقت دے جاتاہے۔
سیدی تاج الشریعہ کی وفات حسرت آیات ایسا عظیم سانحہ ہے جس کی بھر پائی اس قحط الرجال کے دور میں ناممکن ساہے، علم و حکمت سے لبریزرہنے کے باوجود آپ نےملک وبیرونی ملک اتنے تبلغی اسفارکئے ہیں اوردین وسنیت کا وہ کام کیاہے کہ یقینا ًعلم و حکمت خودآپ پر نازاں ہے۔
 لہٰذا ہم لوگ انتہائی غم و اندوہ کے ساتھ اولاد کو باپ کی، بھائی کو بھائی کی، دوست کو دوست کی، عزیز کو ایک عزیز کی تعزیت پیش کرتے ہیںاور دعاکرتے ہیں کہ رب قدیر حضرت کو اپنے جوار عزت و جلال میں جگہ دے ،جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاکرےاور ان کے ورثہ خصوصاً حضرت مولانا عسجدرضاخان صاحب کو صبر جمیل مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین۔
یکے ازسوگوراں
عبد الخبیر اشرفی مصباحی      
صدرالمدرسین دار العلوم اہل سنت منظر اسلام
التفات گنج امبیڈکر نگر
9932807264

سخت ویراں ہے جہاں تیرے بعد

عبد الخبیر اشرفی مصباحی صدر المدرسین دار العلوم اہل سنت منظراسلام، التفات گنج ،امبیڈکرنگر 

وارث علوم اعلی حضرت ،جانشین مفتی اعظم ہند ،تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی اختر رضاخان علیہ الرحمہ کی شخصیت عالمی شہرت یافتہ تھی،آپ کے دنیاسے پردہ کرلینے سے پورے عالم اسلام کا خسارہ ہواجس کی بھرپائی بہت مشکل ہے،انہوں نے پوری زندگی دین وسنیت اورمذہب ومسلک کی ترویج اشاعت میں صرف کردی۔
حضرت تاج الشریعہ کا تعلق مشہور علمی وروحانی خانوادہ، خانوادئہ رضاسے ہے۔ امام العلماعلامہ رضا علی خان، رئیس المتلمین علامہ نقی علی خان،اعلی حضرت مجدد دین وملت امام احمد رضان خان،مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خان اور حجۃ الاسلام علامہ حامد رضاخان علیہم الرحمہ اسی خانوادہ کے علمی وروحانی سربراہ تھےاوراسی خانوادہ کے گل سرسبد حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ ہوئےجو ذکاوت طبع، قوت اتقان اور وسعت مطالعہ میں اپنی مثال آپ تھے۔آپ کا علمی پہلو بہت مضبوط تھا، جن دنوں آپ دار العلوم منظر اسلام میںتعلیم حاصل کررہے تھے ، اردو اخبارات کا عربی میں ترجمہ کرکے مصری عالم مولانا عبد التواب کو دکھایاکرتے تھے اور ان کے ساتھ عربی میںکلام کرتے تھے۔ان ہی کے اشارہ پر آپ کو جامعہ ازہر بھیجاگیا،جامعہ ازہر کی تعلیم نے آپ کو ماہر علوم دینیہ کے ساتھ سہ لسانی صاحب اسلوب ادیب بنادیا۔ علوم دینیہ مثلاتفسیر وحدیث ، فقہ واصول فقہ، افتاوقضااورقرأت وتجوید میں آپ کو یدطولی حاصل تھا۔ چالیس سالوں سے زاید عرصے تک مسند افتانےآپ سے رونق پائی۔علوم عقلیہ مثلامنطق وفلسفہ ،ریاضی وجفراورتکسیر وتوقیت میں بھی آپ نے کمال حاصل کیاتھا۔نثر ونظم دونوں اقسام میں آپ کے علمی آثار موجود ہیں۔
حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ سہ لسانی شاعر بھی تھےاور خطیب بھی، ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش میں آپ کا خطاب اردو میں ہوتاتھا، عرب ممالک میں عربی اوریورپین وامریکن ممالک میں انگریزی میں خطاب کرتےتھے۔اردو وعربی زبانوں میں آپ کو ملکہ حاصل تھا ، ان دونوں زبانوں میں آپ کی برجستہ گوئی اس پر شاہدعدل ہے۔آپ کی شاعری میں فصاحت وبلاغت،ندرت خیال اورحسن ترتیب دیکھ کراندازہ ہوتاہے کہ آپ ان زبانوں کے قدیم وجدید اسلوب سے واقف تھے۔
حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے مریدین تقریباًتمام بر اعظم میں پائے جاتے ہیں۔یورپ وامریکہ کی بہ نسبت ایشائی ممالک میں مریدین کی تعداد زیادہ ہے، مریدین میں ہرقسم کے لوگ شامل ہیں،علماومشایخ، صلحا وصوفیا، شعراوادبا، طلباوریسرچ اسکالرز، پروفیسرولکچررز، قائدین ومفکرین ، مصنّفین ومحققین اورعوام وجہلاسبھی آپ کے دامن کرم سے وابستہ ہیں۔زمرئہ مریدین میںاہل علم ودانش کی شمولیت اور اہل علم وفضل کی آپ سے قربت کی بناپر آپ کے خلفاکی تعداد بھی کثیر ہے۔
حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ ایک مضبوط وبے باک دل کے مالک تھے،صداقت وحقانیت پر استحکام کے ساتھ قائم رہتے تھے،کسی لیڈروحکومتی اہل کارسے کبھی خوف نہیں کھاتے تھے، چنانچہ ۱۹۸۴مطابق ۱۴۰۵ھ میں جب آپ نے دوسراحج کیا، سعودی حکومت نے آپ کو قیام گاہ سے گرفتارکرلیا، سی آئی ڈی کے انٹرویومیں آپ نے بلاخوف وخطر اہل سنت وجماعت کے عقائد بیان کئےاور وہابیوں اور قادیانیوں کی تردید کی اور یہ ثابت کردیاکہ بریلوی کوئی فرقہ نہیں ہے، ہمیں بریلوی وہی لوگ کہتے ہیں جسے یہ وہم ہوتاہے کہ بریلوی کوئی نیافرقہ ہے، ہم اہل سنت وجماعت ہیں اوراہل سنت وجماعت کہلواناہی پسند کرتے ہیں۔اسی طرح ۱۹۷۵میں جب ہندوستان میں ایمرجنسی نافذہوئی اور نس بندی کی مہم چلی تو آپ نے اس کے خلاف علمی وعملی تحریک چلائی ۔
یہ غالباً ۱۹۹۴ کی بات تھی جب حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو میں نے پہلے باردیکھاتھا، حضرت کی آمد مالیگاؤں مہاراشٹر میں ہوئی تھی، جس گھر میں حضرت کا قیام تھا اس میں اِس کمترین بندہ کابھی آنا جاناتھا،الحمدللہ مسلسل تین روز تک خدمت کا موقع میسر آیاتھا ، واہ!کیا ذات تھی ، سادہ طرز زندگی تھی، حسن اخلاق اور لطف و کرم کے پیکر جمیل تھے،وقت رخصتی دعائیں دیں، سرپہ ہاتھ رکھا ، آج بھی ان نرم گدازہاتھوں کے لمس کا احساس ہورہاہے۔
ان کے جاتے ہی یہ کیاہوگئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ درکی صورت

Wednesday, April 11, 2018

شیخ علاء الحق پنڈوی

خلیفہ آئینہ ہند اخی سراج، مرشد مخدوم اشرف کچھوچھوی شیخ عمر علاء الحق پنڈوی -ایک مختصرتعارف
بمناسبت عرس مقدس منعقدہ ۲۱؍تا۲۴؍رجب المرجب ۱۴۳۹ھ
مضمون نگار :عبد الخبیر اشرفی مصباحی
ناشر: اشرفیہ اسلامک فاؤنڈیشن -حیدرآباد دکن
پیدائش وجائے پیدائش:
مخدوم العالم شیخ علاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ کی پیدائش سن ۷۰۱ھ مطابق ۱۳۰۲ء میں ہوئی۔آپ کی جائے پیدائش کی تعیین میں مؤرخین کا اختلاف ہے، بعض حضرات نے پنڈوہ اور بعض نے لاہورلکھا ہے۔ راجح یہ ہے کہ آپ کی پیدائش لاہور میں ہوئی، مخدوم سید اشرف جہانگیر کچھوچھوی کے اس قول سے جائے پیدائش کا تعین ہوتاہے’’دار الخلافت جنت آباد عرف گور میں سادات عالیہ رہتے ہیں جو قطب الاولیائے محققین ولُبُّ الاصفیائے مدققین مخدومی مولائی سندی حضرت شیخ علاء الحق قدس اللہ روحہ کے ہمراہ ولایت لاہور وملتان سے آئے تھے۔‘‘[مکتوبات اشرفی،ترجمہ - سیدشاہ ممتاز اشرفی،سید اشرف جہانگیر سمنانی، مکتوب ۳۲، ص:۳۳۸،ناشر دار العلوم اشرفیہ رضویہ اورنگی ٹاون، کراچی پاکستان، سال اشاعت ندارد-]
حسب ونسب:
مخدوم العالم شیخ علاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ کا نسب صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے ملتاہے۔‘‘ خزینۃ الاصفیا میں ہے کہ:’’معارج الولایت کے مصنف لکھتے ہیں کہ: ’’علاء الدین صحیح النسب قریشی تھے۔ آپ کا نسب نامہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے ملتاہے۔‘‘(خزینۃ الاصفیا، مفتی غلام سرور لاہوری،ج:۲،ص:۲۴۶، مکتبہ نبویہ گنج بخش روڈ، لاہور، سن اشاعت ۲۰۰۱-)آپ کے والد کا نام اصح روایت کے مطابق اسعدتھا۔،اخبار الاخیار، خزینۃ الاصفیااور دیگر معتبر کتابوں میں یہی نام لکھا ہے۔
شیخ عمر علاء الحق پنڈوی کا سیاسی وعلمی مقام:
مخدوم العالم حضرت شیخ عمرعلاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ کا حکومتی امور میں بڑاعمل دخل تھا۔ مؤرخین نے وزرائے حکومت میں آپ کا نام نامی اسم گرامی بھی شامل کیاہے۔آپ کا گھرانہ شاہانِ مملکت کا نور نظر تھا۔ والد گرامی وزیر مالیات اور بیٹا وزیر مملکت تھے۔
آپ علم وفضل میں ایسا کمال رکھتے تھے کہ صاحبان علم وفضل اور اہل جبہ ودستار آپ کے درکی جبہ سائی کرنا اپنی فیروزبختی سمجھتے تھے،آپ اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم و فاضل،مفتی و فقیہ، مفسرومحدث، نحوی وصرفی، اورخطیب وداعی تھے۔ اللہ تعالی نے آپ کو علم ظاہری کے ساتھ علم لدنی بھی عطا فرمایا تھا۔ چنانچہ۱۰۱۴ھ میں لکھی گئی کتاب گلزار ابرار میں لکھاہے کہ آپ کو علم لدنی حاصل تھا، چنانچہ شیخ محمد غوثی شطاری ماندوی لکھتے ہیں کہ: ’’علاء الحق، مخدوم العالم، علاء الدین تل بنگالی آپ کا لقب ہے، آپ دونوں جہان کے امام تھے اور درسی ولدنی دونوں علم آپ کو حاصل تھے۔‘‘(اذکار ابرار ترجمہ گلزار ابرار،محمد غوثی شطاری ماندوی ترجمہ فضل احمد جیوری،ص: ۴۰۱، ناشردار النفائس کریم پارک لاہور،سن اشاعت ۷۲۴۱-)
شیخ عمرعلاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ کو اصولی، فقہی اور عربی علوم پر مہارت تامہ حاصل تھی۔ مصنف نزھۃ الخواطر نے لکھاہے کہ:عالم کبیر شیخ عمر بن اسعد لاہوری معروف بہ شیخ علاء الدین پنڈوی فقہ، اصول اور عربی ادب کے علمائے کاملین میں سے تھے، ان کے والدشاہِ بنگال کے وزیر تھے، اس لیے امراء وسلاطین کے نزدیک ان کی بڑی وجاہت اور قدر ومنزلت تھی، ان کی شہرت پوری دنیا میں تھی، وہ درس دیتے اور فائدہ رسانی کرتے تھے، کثیرلوگوں نے ان سے علم حاصل کیا۔‘‘(نزھۃ الخواطر وبھجۃ المسامع و النواظر،عبد الحی لکھنوی، ج:۲،ص:۱۸۱،ناشر دارابن حزم بیروت، لبنان سن اشاعت۱۹۹۹/۱۴۲۰۔)
شیخ عمر علاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ نے خوداپنے علم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی سے کہاکہ میں ایک پھل دار درخت ہوں جسے ہلاؤ تو تمہیں علم وحکمت کے پھل ملیں گے،چنانچہ سید وحید اشرف کچھوچھوی لکھتے ہیں کہ:’’آیات قرآنی کی تفسیراور فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ کے نکات مجھ سے حاصل کرلو، میں ایک پرُبار درخت ہوں جسے ہلاؤ تو تمھیں عجیب وغریب پھل ملیں گے۔‘‘(حیات مخدوم اشرف سمنانی،سید وحید اشرف، ص:۵۷، ناشرمصنف خود، سن اشاعت۱۹۷۵ء،بحوالہ مکتوبات اشرفی ہفتاد وپنجم -)
طرز زندگی اورلقب گنج نبات:
مخدوم العالم شیخ عمرعلاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ بڑے شاہانہ اندازمیں رہاکرتے تھے اور اپنے آپ کو گنج نبات (مٹھائی کا خزانہ)کہلاتے تھے، اس لقب کو اختیار کرنے کے پیچھے کون سے عوامل کارفرماتھے؟اس سلسلے میں مؤرخین نے الگ الگ وجوہات اور روایات لکھی ہیں: شیخ عبد الرحمن چشتی نے مرآۃ الاسرار میں، مرزا محمد اختر دہلوی نے تذکرئہ اولیائے برصغیر میں اورشیخ وجیہ الدین اشرف لکھنوی نے بحرزخار میں لکھاہے کہ شیخ علاء الحق پنڈوی وفور علم، کثرت اطلاع، زہد وتقوی اور اپنی جاہ ومنزلت و احتشامِ دولت کی وجہ سے اپنے آپ کو گنج نبات کہلاتے تھے، محدث اعظم ہند سید محمد اشرفی کچھوچھوی نے لکھاہے کہ:’’ بعضوں کے خیال میں آپ کو گنج نبات سب سے پہلے آپ کے جلیل القدر خلیفہ حضرت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اظہارِ عقیدت کے طور پر کہا تھاجس کو غیبی قبولیت کا تاج عطاہوا اور آپ کا یہ لقب زبان زد ہو گیا۔ و اللہ تعالیٰ اعلم بحقیقۃ الحال!‘‘(ماہنامہ اشرفی،جلد ۲/شمارہ نمبر۸؛ محرم الحرام۱۳۴۳ ھ /اگست ۱۹۲۴ء-)
بیعت وخلافت:
مخدوم العالم شیخ عمرعلاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ کے علم وعمل، تقویٰ پرہیزگاری اور مقبول بارگاہ الٰہی ہونے کا چرچا چاروں طرف عام ہو چکا تھا۔سینہ کمالِ علم سے اور ذہن جلالِ فضل سے آراستہ تھا۔علماء ومشایخ اورارباب حل وعقد ان کے درکی دربانی،اپنے لیے سرمایۂ افتخار سمجھتے تھے، اہل جبہ ودستاران کی چوکھٹ کی جبیں سائی، اپنی فیروزمندی گردانتے تھے۔ان کی ذات ایسی تھی جن کے سامنے لب کشائی کی کسی میں جرأت نہ تھی۔ وہ ایسی ذات تھی جن کاذکر ہر ایک کیساتھ تھامگر وہ ان میں ممتاز تھے۔وہ سب سے آگے تھے ان سے آگے کوئی نہ تھا۔انہوں نے سب کوپیچھے چھوڑ دیا اورکوئی ان کاپیچھا نہ کر سکا۔وہ سب سے منفرد، ہر فہرست میں سرفہرست، کسی فہرست میں مؤخر نہیں تھے۔ان کی ذات میں زمانے کی ساری عظمتیں جمع تھیں۔
وہ زاہدوں، مرتاضوں اور عابدوں کے رہنما و قائد تھے، حکمراں وتخت نشینوں کے امیر تھے، لیکن ان کی قیادت ورہنمائی علماء جیسی تھی، ان کا عدل وانصاف قاضیوں جیسا تھا اور ان کا یقین و ایقان عارفین باللہ جیسا تھا۔
وہ سمجھ دار عالم،صائب راے فقیہ اور صاحب بصیرت مدبرتھے، ان کاعلم حکومت کی وجہ سے بے کار نہیں ہوا،ان کا تفقہ اقتدار کی وجہ سے ڈگمگایا نہیں، اوران کے فیصلوں نے اپنے متبعین کی رضا مندی کی خاطرکسی پر ظلم نہیں کیا۔
وہ ہمہ جہت ذات تھی، ہرخوبی ان میںموجود تھی، بتقاضۂ بشریت اگر ان میں کوئی نقص تلاش کیاجاتا تو ان کاجلال اوران کی نازواداکے علاوہ کچھ نہ ملتا، رحمت خدا ان کی اس نازواداکو بھی تبدیل کرنا چاہتی تھی،انھیں رنگ تصوف میں دیکھنا پسند کرتی تھی،چنانچہ اللہ کریم کی رحمت ان پر نازل ہوئی کہ سلطان المشایخ سید محمد نظام الدین اولیا نے آئینۂ ہندوستان اخی سراج الدین عثمان کوان کے پاس مرشد کی حیثیت سے بھیج دیا، یہیں سے ان کی حیات میں انقلاب آگیا اور بیعت وخلافت کے بعدان کے رنگ جلال میں جمال گیا، علم باطن وتصوف، آداب طریقت وسلوک اور منازل ہجر ووصال کی جانب توجہ بڑھ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ سرخیل مشایخ ہوگئے، شیخ العالم بن گئے۔ سلطان المرشدین، مخدوم العالم، گنج نبات جیسے القابات سے نوازے جانے لگے۔
شیخ کی خدمت:
خزینۃ الاصفیا میں ہے کہ:’’جن دنوں شیخ عمرعلاء الحق حضرت شیخ سراج الدین اخی قدس سرہ کی خدمت میں سرفراز ہوئے اور دنیاوی خواہشات اور مال ومنال سے دست برداری کا اعلان کیا، تووہ اپنے پیر ومرشد کے سفر میں ہم سفر رہتے، درویشوں کے لیے طعام پکاکر ساتھ ہوتا، یہ گرم گرم دیگچہ حضرت شیخ علاء الحق سرپر رکھ لیتے اور حضرت کے ساتھ ساتھ چلتے، اس دیگچے کی گرمی سے آپ کے سرکے بال جھڑگئے تھے، حضرت شیخ اخی سراج اکثراوقات ان مقامات سے بھی گذرتے جہاں شیخ علاء الحق کے رشتہ داربڑی شاہانہ زندگی بسرکرتے تھے، لیکن آپ ننگے پاؤں اپنے شیخ کی سواری کے ساتھ ساتھ چلتے، مگر اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کو اس شان وشوکت میں دیکھ کر حضرت علاء الحق پر کوئی دنیاوی تأثر نہ ہوتااور آپ خوش خوش یہ خدمت سرانجام دیتے ریتے۔‘‘۔(خزینۃ الاصفیا،مفتی غلام سرور لاہوری، ج:۲،ص:۲۴۷، مکتبہ نبویہ گنج بخش روڈ لاہور، سن اشاعت ۲۰۰۱-)
صرف اتناہی نہیں کہ حضرت شیخ پنڈوی علیہ الرحمہ نے اپنے پیر ومرشد علیہ الرحمہ کے خورد ونوش کا انتظام سنبھالا، بلکہ آپ نے قلی گیری کے ساتھ ساتھ کہاروں جیساکام بھی انجام دیا۔ اپنے پیر ومرشد کی پالکی کے دائیں ہاتھ کا ڈندا اکثر آپ کے کاندھے پر ہوتاتھا اور آپ اسی حالت میں اپنے خاندان وسسرال والوں کے محلوں کے قریب سے بارہاگذراکرتے تھے، لیکن آپ کی پیشانی پر کوئی بل نہیں آتاتھا۔ لطائف اشرفی میں ہے کہ:’’شیخ سراج الحق قدس سرہ حضرت مخدومی کی نسبت کمال درجہ لطف ومہربانی فرمایا کرتے تھے، لیکن ان سے خدمت اس حد تک لیتے تھے کہ اکثر اوقات حضرت سراج الحق پالکی میں سوار ہوجاتے اور سیر کو نکل جاتے۔ حضرت مخدومی پالکی کا سیدھا ہاتھ کا ڈنڈا اپنے کاندھے پر رکھ کر دور تک پالکی لے جاتے تھے۔‘‘۔(لطائف اشرفی، لطیفہ ششم،حضرت نظام یمنی، ترجمۂ حضرت علامہ شمس بریلوی،ج:۱،ص:۲۵۱،ناشرشیخ محمد ہاشم اشرفی پاکستان، سن اشاعت ندارد-)
سخاوت وفیاضی اورپنڈوہ شریف سے جلاوطنی:
مخدوم العالم شیخ عمرعلاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ کی سخاوت وفیاضی اور بخشش وکرم عام تھی، ہرخطہ میں اس کی شہرت تھی، رفتہ رفتہ اس کی شہرت دربار سلطانی تک پہنچی، خبر سنتے ہی بادشاہ وقت کوحیرانی ہوئی، اس نے اس بے پناہ سخاوت وفیاضی کو اپنی سلطنت وحکومت کے لیے بہتر نہیں سمجھا، حواس باختہ ہوکرآپ کو پنڈوہ شریف چھوڑ دینے کا حکم صادر کردیا،چنانچہ مرزا محمد اختر دہلوی لکھتے ہیں کہ:’’آپ کی خانقاہ میں بہت خرچ تھا، ہزاروں آدمی، خادم ومسافر آتے اور رہتے تھے، سب کو کھانا ملتاتھا، اورجو کچھ جو مانگتا آپ اس کو عطاکرتے، جب یہ خبر بادشاہ کو ہوئی اس کو رشک ہوا، وزراسے کہاکہ: میراخزانہ اس کے خرچ کے آگے ناچیزہے ایسے شخص کاکہ جو اس قدر خرچ کرتاہے اپنے شہر میں رکھنا مصلحت نہیں، آخر حضرت بحکمِ شاہ وہاں سے اٹھ کر سنارگاؤں میں سکونت پذیرہوئے اور خادم کو حکم کیاکہ آج سے دوناخرچ کیاجائے کہ خارچشمِ حاسدوں میں بہتر ہے۔‘‘۔(تذکرۂ اولیائے بر صغیرمعروف بہ تذکرۂ اولیائے ہندوپاکستان،مرزا محمد اختر دہلوی، جلد اول، ص:۱۹۵، ناشر ملک اینڈ کمپنی لاہور، سن اشاعت ندارد-)
تبلیغ واشاعت دین:
مخدوم العالم شیخ علاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ کی ولایت پر علماء ومشائخ کا اجماع ہے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی دین حق کی تبلیغ و اشاعت میں گزاردی۔ سلسلۂ چشتیہ کی تعلیمات سے آپ کے ذریعہ کثیر تعداد میں لوگوں نے ہدایت پائی۔ حق سے غافل ہزاروں نے قبول اسلام کیا۔ علماء و فضلاء کی ایک بڑی جماعت نے آپ سے اکتساب فیض کیا۔ ہزاروں نے اپنی گناہ سے ملوث زندگیوں میں تبدیلیاں پیداکیں اور نیکی و پارسائی کی طرف راغب ہوئے۔ آپ کے عمل اور طرز تربیت سے،گنواروں کو تہذیب، ناعقلوں کو عقل،بے علموں کو علم، گناہ گاروں کو رغبت نیکی، تاریک عملوں کو شوق عمل اور بد کرداروں کوحسن اخلاق کی دولت نصیب ہوئی-گمراہ شخص ہدایت یافتہ ہوگیا،کامل اکمل بن گئے،ادنی اعلی ہوگئے اور اعلی بلندی کی آخری منزل کی طرف گامزن ہوئے۔
وصال وجانشینی:
حضرت مخدوم شیخ علاء الحق پنڈوی کاوصال بمطابق قول مشہور ۸۰۰ھ/۱۳۹۸ء و بمطابق قول محقق۷۸۰ھ/۸۷۳۱ء میں ہوا۔ مزار پاک پنڈوہ شریف ضلع مالدہ، مغربی بنگال میں زیارت گاہ عام ہے، ۲۲تا۴۲رجب المرجب عرس کے مراسم ادا کئے جاتے ہیں۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے خلیفہ غوث العالم، محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی اور صاحب زادہ و جانشیں شیخ احمد نورالحق والدین معروف بہ نورقطب عالم علیہما الرحمہ نے آپ کے مشن کو آگے بڑھایا۔
ترسیل مضمون:
اشرفیہ اسلامک فاونڈیشن
حیدرآباد دکن

Wednesday, January 17, 2018

مخدوم العالم شیخ عمر علاء الحق لاہوری ثم پنڈوی بنگالی علیہ الرحمہ کی حیات و خدمات پر پہلی تحقیقی کتاب لکھنے کی اللہ عزوجل نے توفیق عطا فرمائی ۔ ماہ رجب المرجب کی ۲۲ تاریخ ۱۴۳۸ ھ کو حضرت مخدوم العالم کے عرس کے موقع پر پنڈوہ شریف مالدہ میں رسم اجراء عمل میں آیا