Tuesday, October 1, 2019

فارغین مدارس میں داعیانہ فکر وکردار کی ضرورت اور اس کے تقاضے


از قلم : عبد الخبیر اشرفی مصباحی، پرنسپل مدرسہ عربیہ اہل سنت منظر اسلام، التفات گنج ،امبیڈکر نگر


قرآن کریم کا مطمح نظر یہ ہے کہ دنیا کے ہر مسلمان کو اپنے دین ومذہب کا مبلغ ہونا چاہیے- اللہ عزوجل شانہ فرماتاہے:’’کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَوْ اٰمَنَ اَہْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ مِنْہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَکْثَرُہُمُ الْفٰسِقُوْنَ‘‘تم بہتر ہواُن سب اُمتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور بُرائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر کتابی ایمان لاتے تو اُن کا بھلا تھااُن میں کچھ مسلمان ہیں اور زیادہ کافر[سورئہ آل عمران :۱۱۰،ترجمہ:کنز الایمان]صاحب قرآن مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان بھی یہی ہے :’’ بلغواعنی ولوآیۃ‘‘میری طرف سے دنیا والوں کو پہنچادو اگرچہ ایک ہی بات سہی-
علماومشائخ حضرات انبیاعلیہم الصلاۃ والسلام کے نائب ووارث ہوتے ہیں ، اس لیے ان کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری بدرجۂ اتم عائد ہوتی ہے کہ وہ دنیا والوں میں دعوت تبلیغ کا فریضہ انجام دیں - قرآن کریم نے نے بھی علماومشائخ کو خصوصی ذمہ داری نبھانے کی تاکید فرمائی ہے- ارشاد ربانی ہے:’’وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً  فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ ‘‘-اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہو کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیںاس امید پر کہ وہ بچیں [سورئہ توبہ :۱۲۲، ترجمہ: کنز الایمان]
موجودہ دورمیںدعوت وتبلیغ کے سلسلے میں مدارس کا کردار
دعوت وتبلیغ کے کاموں کو قوم کے سامنے انفرادی واجتماعی دونوں طریقے سے پیش کرنے کا قرآن کریم نے نظریہ دیا ہے - لیکن اجتماعی وتنظیمی دعوت کے اندر جو خوبیاں موجود ہیں وہ کسی ذی شعور انسان سے پوشیدہ نہیں ہے - انفرادی دعوت کے سلسلے میں قرآن کریم کی اس آیت کریمہ پر غور کرنا چاہیے-’’وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللہِ وَ عَمِلَ صٰلِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘-اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں-[سورئہ حم سجدہ ۳۳، ترجمہ کنز الایمان] رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ عن ابی سعید رضی اللہ عنہ قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول :’’ من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذالک أضعف الایمان‘‘حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا کہ تم میں جو شخص خلاف شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اسکی اصلاح کرے اگر طاقت نہ رکھتاہو تو زبان سے اسکو روکے اگر اسکی بھی طاقت نہ رکھتاہو تو دل سے اسکو براجانے یہ ایمان کا کمزورترین درجہ ہے-
انفرادی تبلیغ سے زیادہ کارآمد تنظیمی تبلیغ ہوتی ہے - تنظیمی سطح پر جو کام ہوگا اسکے اثرات ونتائج دوررس ہوں گے - قرآن کریم نے مبلغین کی تنظیم سازی کا حکم اس انداز میں دیاہے -’’وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْن‘‘اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بُری سے منع کریں اور یہی لوگ مُراد کو پہنچے [سورئہ آل عمران:۳، ترجمہ: کنز الایمان]ایک دوسری آیت میں یوں ارشاد ہے-’’وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً  فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ‘‘-اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہو کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیںاس امید پر کہ وہ بچیں [سورئہ توبہ :۱۲۲ترجمہ: کنز الایمان]
مذکورہ آیتوں میں قرآن کریم کا منشایہ ہے کہ دعوت وتبلیغ اور دین سکھانے کے لیے مومنوں میں سے کچھ لوگوں پر مشتمل ایک جماعت یا تنظیم ہونی چاہیے اور اہل ایمان میں سے کچھ لوگوں کو تعلیم دین کے لیے نکلتے رہنا چاہیے - ماضی میںدعوت وتبلیغ کے میدان میں مدارس اسلامیہ نے بڑا اہم کردار ادا کیاہے -اسلاف کرام نے اسلامی پیغام رسانی کے لیے مدارس ومساجد کو ایک بڑے پلیٹ فارم کے طور استعمال کیاہے-یہ کام مدارس اسلامیہ چاہیں تو اب بھی بخوبی انجام دے سکتے ہیں - مدارس کے پا س اس کے لیے اہل افراد بھی ہیں اور فنڈ بھی ہے- لیکن حرماں نصیبی یہ ہے کہ ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کے اس وسیع نیٹ ورک میں شاید ہی کوئی مدرسہ ایسا ہو جو دعوت وتبلیغ کے لیے دیہی وشہری علاقوں میں قافلے روانہ کرتے ہوں - مطبخ ، مدرسین کی تنخواہ ، تعمیر عمارات وغیرہا کی طرح دعوت وتبلیغ کے لیے الگ سے بجٹ مختص کرتے ہوں بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان مدارس کے قیام میں دعوت وتبلیغ کا جذبہ کارفرماہی نہیں ہوتا - بانیان مدارس کے نیت وارادے میں صرف دینی ومذہبی تعلیم کا رسمی فروغ وارتقاکا جذبہ شامل ہوتاہے اور بس-شاید یہی وجہ ہے کہ فارغین مدارس اسلامیہ اساتذہ واراکین کی مساعی جمیلہ اورانکی شفقت ومہر بانی سے بہترین مدرس اور اپنی ذاتی لگاو ولگن اور خداد داد نعمتوں کے سہارے بہترین خطیب اورعمدہ مقررومحرر تو بن جاتے ہیں مبلغ وداعی نہیں بن پاتے -فارغین مدارس اسلامیہ کے خطیب ومقرر بن جانے کا انتساب ہم نے اراکین واساتذہ کی طرف اس لیے نہیں کیا کہ تقریر وتحریر کے میدان میں بھی اکثر مدارس میں طلبہ کی مشق وتمرین کی طرف کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی اس کے لیے کوئی نصاب وقواعد زیردرس ہوتے ہیں بلکہ اس کے لیے طلبہ خود انجمنیں قائم کرتے ہیں خود ہی ان کے صدر وسکریٹری ہوتے ہیں اور خود ہی مصلح ومبصر - اساتذہ واراکین کو نہ انکی تقریروں میں میں غلطیوں کی اصلاح کاخیال ہوتاہے اور نہ ہی ان کی تحریروں میں نکھار پیداکرنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے - ایسے عالم میں فارغین مدارس اسلامیہ کو اگر ہم بشکل مبلغین ودعاۃ دیکھنا چاہیں تو یہ سوائے حسن ظن کے اور کچھ بھی نہیں-
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
کہ تیرے بحرکی موجوں میںاضطراب نہیں
مذکورہ گفتگو سے ہمارہ مقصد ہر گز یہ ہے کہ سارے بانیان مدارس ایک ہی صف میں کھڑے ہیں اور جملہ اساتذئہ مدارس اسلامیہ ایک ہی میدان کے شہسوار ہیں بلکہ ان میں بعض یقینا ایسے ہوں گے جو ہمہ جہت مقاصد کے تحت کسی مدرسہ کی بنیاد رکھتے ہوں گے اور وہ اپنے مقاصدکی تکمیل کے لیے جد وجہد بھی کرتے ہوں گے مگر ان کو خاطرخواہ نتیجہ اس لیے نہیں مل پاتا کہ یہ ان کی شخصی کاوش ہوتی ہے جبکہ دعوت وتبلیغ کا کام تنظیمی واجتماعی کاوشوںکا متقاضی ہے -اور قرآن کریم نے ان ہی کاوشوںپر کامیابی کی بشارت دی ہے-
دور حاضر میں فارغین مدارس کے اندر دعوتی عنصر کا فقدان؟
اصحاب دعوۃ وتبلیغ کی اصل فیکٹری دینی ومذہبی درسگاہیں ہی ہیں- یہی سے مبلغین ودعاۃ تیارہوتے رہے ہیں-اور آج بھی بقول وبزعم خویش ہرخطیب وامام، مقرر ومحرر اور معلم ومدرس علمائے کرام دعوت وتبلیغ ہی کا کام انجام دے رہے ہیں - پھر بھی ان کے عمل کو دعوت وتبلیغ اور انکو مبلغ وداعی تسلیم نہیں کیا جاتا؟ یہ نہایت حیرت انگیز اور دلچسپ معاملہ بلکہ معمہ ہے! اس معاملہ یا معمہ کے حل کے لیے اس کے اسباب ووجوہات کی تلاش وجستجوکی جانی چاہیے-
برگ حنا پہ لکھتاہوں درد دل کی بات
شاید کہ رفتہ رفتہ لگے دل ربا کے تھ
٭ خطابت وامات ، تحریر وتقریر اور تعلیم وتدریس کے معنی کے اندر دعوت وتبلیغ کے معنی کی ’’تضمین‘‘ تھی اس لیے ہر خطیب وامام، محرر ومقرر اور معلم ومدرس کو داعی ومبلغ سمجھا جاتاتھا- اب دعوت وتبلیغ دین کا الگ شعبہ بن گیاہے - ضرورت زمانے کے پیش نظر اس شعبہ کی طرف مستقل توجہ دینے کی اہمیت بڑھ گئی ہے - شاید یہی وجہ ہے کہ دانشوروںنے دعوت وتبلیغ کو ایک الگ اصطلاح کے طور پر دیکھنا شروع کردیاہے اور اس کے لیے مستقل طور پر جماعتیں وتنظیمیںمیدان عمل میں آرہی ہیں - بلفط دیگرخطابت وامامت، تحریر وتقریر اور تعلیم وتدریس کے الفاظ سے دعوت وتلیغ کے معنی کی ’’تجرید‘‘ کر لی گئی ہے-
٭ دعوت وتبلیغ کا کام اخلاص پر مبنی ہے، اس کے لیے قوم سے کوئی اجرت طلب نہیں کی جاتی ہے - ہمارے اسلاف کا بھی یہی وطیرہ رہاہے- قرآن کریم نے بھی یہی نظریہ پیش کیاہے- فرمان الہی ہے-’’وَمَآ اَسْـَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘اور میں تم سے کچھ اس پر[تبلیغ دین پر]اُ جرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے [سورئہ شعراء:۱۴۶، ترجمہ کنز الایمان]خطابت وامامت اور تعلیم وتدریس وغیرہا دینی امورپر پہلے اجرت نہیں لی جاتی تھی اور شرعایہ ناجائز وحرام بھی تھا- مگر حالات زمانہ کے بدلنے سے مسائل میں بھی تبدیلی واقع ہوئی اور دین متین کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے علمائے متأخرین نے خدمت دین پر اجرت کے جواز کا فتوی صادر فرمایا-رفتہ رفتہ موجودہ دور میں خدمت دین کا کام تقریبا پیشہ کی حیثیت میں آگیا اور اس پر اجرت ومعاوضہ مقصد اعظم بن گیا - اخلاص وللہیت دلوںسے رخصت ہوچکی -اب تو حال یہ ہے کہ منچاہی تنخواہوں کے بغیر باصلاحیت مدرسین درسگاہوں کی زینت بنناپسند نہیں کرتے اور منہ مانگے نذرانے کے بغیر شیریں بیان خطیب رونق اسٹیج نہیں ہوتے-شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میںپیشہ ورعلماوخطباکو لوگوں نے دعاۃ ومبلغین میں شمار کرناچھوڑدیاہے-
کس طرح ہوا کند تیرا نشتر تحقیق
ہوتے کیوں نہیں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
٭ تعلیم وتعلّم کا مقصد انسان کو صالح بندہ بنانا، دین ومذہب کا بے لوث خادم بنانا اور لوگوں کی اصلاح کرنا ہے-اس کی پہلی سیڑھی اخلاص نیت ہے- اس لیے ہمارے اسلاف کرام نے ایمان واسلام کے ساتھ ’’احسان‘‘ کی تعلیم کا خصوصی اہتمام فرمایاکرتے تھے- تاکہ طالبان علوم نبویہ بوقت فراغت زیور علم سے آراستہ وپیراستہ ہونے کے ساتھ احسان وتزکیہ کے زیور سے بھی مزین ہو کر مدرسوں سے نکلیں- بعض حضرات علوم ظاہرہ کی تکمیل کے بعد برسوں کسی مرشد کی صحبت میں رہ کرباطنی علوم [احسان] کی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے - پھر مسند درس وتبلیغ لگاتے تھے اور ارشاد وبیان کی بساط بچھاتے تھے- اب حالات یکسر بدل چکے ہیں - تعلیم کی مقصدیت میں تبدیلی آچکی ہے- والدین کی نیت میں بہترمعاش، اساتذہ کی نیت وارادے میں اچھی صلاحیت ولیاقت اور طلبہ کاہدف سستی شہرت ودولت ہے-ان مقاصد کے حصول کے لیے جو تعلیم حاصل کی جائیگی اس سے دنیاتو کمائی جاسکتی ہے دین کی خدمت نہیںکی جاسکتی -
موجودہ دور میں فارغ ہونے والے طلبہ سے دین کی خدمت اور دعوت وتبلیغ کا کام لینے کے لیے اپنے منہج سے ہٹ کر کچھ اور سوچنے وکرنے کی ضرورت ہے- دین کا اہم رکن ’’احسان ‘‘ جوہماری عملی زندگی کے ساتھ ساتھ درس وتدریس کے مواد سے بھی رخصت ہوچکاہے اسے واپس لانے کی ضرورت ہے-طلبہ کے اندر مذہب وملت کی خدمت کا جذبہ بیدارکرنے کے لیے اسلاف کی سیرت وسوانح اور توکل وللہیت کی تعلیم کو فروغ دینے کی ضرورت ہے-علماوطلبہ کوبیش ازبیش مشاہرہ ووظیفہ دے کر دنیاسے فارغ کرکے دین کی خدمت میںلگانے کی ضرورت ہے- مختصریہ کہ مجدد ملت اعلی حضرت مولانا الشاہ احمد رضا خان علیہ الرضوان کے’’ دس نکاتی پروگرام‘‘کو مکمل طور نافذ کئے جانے کی ضرورت ہے - انشاء اللہ تعالی مدارس کے قیام، طلبہ کا تعلّم اور مدرسین کی تعلیم کا صحیح مقصد حاصل ہو جائے گا-
غیر تعلیم یافتہ اوردیہاتی عوام میں دعوت وتبلیغ
دعوت وتبلیغ کا دائرہ بہت وسیع ہے اور امت مسلمہ کی پوری نسل انسانیت بلکہ نسل آدم علی نبینا وعلیہ السلام کا ہر فرد اس کا مخاطب ہے-لیکن یہ کسی فرد یاتنظیم کی بس سے باہرہے کہ پوری انسانی آبادی تک اپنی دعوت پہنچاسکے - اس لیے دعوت کے کام کے لیے زمرہ بندی بہت ضروری ہے-پوری انسانی آبادی کو جنس، تعلیم، مذہب وملت، عمر،رواج ورسوم بودوباش اور علاقوں کے اعتبار سے کئی زمروں میں تقسیم کیاجاسکتاہے- پھر ان زمروں کی زبان وبیان کا تجزیہ اور ضروریات ولحاظات کا تخمینہ لگاکر دعوت وتبلیغ کا کام کیا سکتاہے-
ہمارا مشاہدہ ہے کہ شہری زندگی کی ضرورتیں دیہاتی زندگی کی ضرورتوں سے مختلف ہوتی ہیں-دونوں علاقوں کے رواج ورسوم الگ الگ ہوتے ہیں - تعلیم کی فیصد بھی دونوں جگہوں پر یکسانیت نہیں ہوتی-تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ افراد کی طرز زندگی میں بھی یکسانیت نہیں ہوتی -جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال جس پیمانے پرتعلیم یافتہ لوگوں اور شہروں میں کیاجاتاہے غیر تعلیم یافتہ لوگوں اور دیہاتوں میں اس پیمانے پر ان کا استعمال نہیں کیاجاتا- اس نوعیت کے بہت امتیازات شہری ودیہاتی زندگی کے مابین غور کرنے سے نمایاں ہوتے ہیں- لہذا فطری بات ہے کہ دونوں علاقوں میں تبلیغ ودعوت کا کام ایک ہی طرز سے انجام دینااور اس کے مطلوبہ نتائج کی امید رکھنا بے معنی سی بات ہوگی-
دیہی علاقوں میں دعوت وتبلیغ کے لیے یہ طریقے مؤثر ہوسکتے ہیں:
٭ مذہبی اجتماع، رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ،صحابہ وصالحین کی سیرت وسوانح کی محفلیں-
٭ ذاتی ملاقاتیں-
٭ پنچ وقتہ نمازوں کے بعد درس قرآن وحدیث-
٭ مذہبی وعصری تعلیم گاہوں میںعلم حاصل کرنے والوں بچوںاوران کے والدین وسرپرستوںکی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیںدین کی طرف مائل کرنے کی کوشش -وغیرہ
انسان جب غیر تعلیم یافتہ ہواور ساتھ ہی دیہاتی سماج سے وابستہ بھی ہو ،شہری سماج وتہذیب کا کوئی حصہ اسے نصیب نہ ہواہوتوایسے لوگوں سے بہت سنبھل کر نرم خوئی سے میل جول رکھنے کی ضرورت ہے- اور جب ایک داعی اسلام کے لیے ایسے افراد ہدف اور ٹارگیٹ بن جائیں تو اسکی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے -ایسے افراد کی غلطیوں کو نظر انداز کردینا چاہیے ، حکمت ودانائی کے ساتھ حسین ودلکش انداز میں اپنے مواد کو ان کے سامنے رکھنا چاہیے اور اس کی دلجوئی کرتے رہناچاہیے- اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل ہمارے لیے مشعل راہ ہے-عن عبد اللہ ابن عباس قال :دخل أعرابی علی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم المسجد وھو جالس،فقال: أللھم اغفرلی ولمحمد ولاتغفر لأحد معنا-قال: فضحک رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ثم قال:’’لقد احتظرت واسعا‘‘ثم ولی الأعرابی حتی اذاکان فی ناحیۃ المسجدفحج لیبول فقال الاعرابی بعد أن فقہ الاِسلام:فقام الی  رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فلم یؤنبنی ولم یسبنی وقال:’’اِنما بنی ھذا المسجد لذکر اللہ والصلوۃوانہ لایبال فیہ ‘‘ثم دعابسجل من ماء فافرغہ علیہ-[صحیح ابن حبان، حدیث نمبر۱۷۵۶]
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماکہتے ہیں ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اس وقت آپ مسجد میں رونق افروز تھے-اس دیہاتی نے کہا: اے اللہ! میری اور محمد[ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم] کی مغفرت فرمااور ہمارے ساتھ کسی کی مغفرت نہ فرمانا-اس کی اس دعاپر اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے مسکرایا اور فرمایا: تم نے کشادگی میں تنگی اختیار کرلی-پھر وہ دیہاتی واپس چل دیا، جب وہ مسجد کے کنارے پہنچاتو وہیں پیشاب کرنے بیٹھ گیا-جب وہ دیہاتی کو اسلام سمجھ میں آگیاتو وہ خود بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے- آپ نے نہ مجھے ڈانٹااور نہ برابھلا کہابلکہ ایک بالٹی پانی منگواکر بہادیااور فرمایا: یہ مسجد اللہ عزوجل کے ذکر اور نماز کے لیے بنائی کی گئی ہے، مسجدجائے پیشاب نہیں ہے- قرآن کریم میں اللہ عزوجل فرماتاہے :’’فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَہُمْ  وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ  فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ  فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ  اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ ‘‘تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لئے نرم دل ہوئے اور اگر تم مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہوجاتے تو تم انہیں معاف فرماؤ اور ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو بے شک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں[سورئہ آل عمران: ۱۵۹، ترجمہ، کنز الایمان]
مختصراً یہ ہے کہ دیہی علاقوں میںغیر تعلیم یافتہ افراد میں دعوت کے لیے طلبہ کو بنیادی علم دین کے ساتھ اخلاص ایثار، صبر وتحمل، اعلی ظرفی وخوش مزاجی، بحث وتکرار وخودنمائی سے اجتناب،مخاطب کی دلجوئی وحوصلہ افزائی اور ذاتی روابط وملنساری کو مضبوط کرنے کی سخت ضرورت ہوتی ہے-
عصری تعلیم یافتہ اوردشہری عوام میں دعوت وتبلیغ
شہری علاقوں میں دعوت کے یہ طریقے مؤثر ہوسکتے ہیں:
٭ پنج وقتہ نمازوں اور نماز جمعہ کے بعد درس قرآن وحدیث-
٭ اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم طلبہ واسکالرزاور درس دینے والے اساتذہ کے درمیان اسلامی توسیعی خطابات-
٭ مذکورہ طلبہ کے لیے سمر کلاسیز اور معلمین کے لیے ورک شاپ-
٭ جدید ذرائع ابلاغ مثلاانٹرنیٹ، ٹیلی ویژن ،SMS,MMS,CD,DVDوغیرہ کے ذریعے اسلامی پیغامت کی ترسیل-
٭ آن لائن رابطہ[مثلا:چیٹنگ وویڈیوکالنگ]
٭ ذاتی ملاقاتیں-
٭ سوال جواب کی محفلیں، خاص عنوان وموضوع پر سمینار وسمپوزیم اور دینی ومذہبی جلسے وغیرہ-
دیہی وشہری علاقوں میں دعوت وتبلیغ کے لیے مذکورہ طریقوں کے علاوہ اور دیگرذرائع کا استعمال بھی ممکن ہے- ہم نے صرف چند طریقے اس نظریہ کے ساتھ درج کئے ہیں کہ دونوں علاقوں کے امتیازات کا لحاظ کرتے ہوئے جہاںدعوت کے طریقے الگ الگ ہوسکتے ہیں،وہیں اس بات کا خیال بھی رکھا جانا ضروری ہے کہ دونوں علاقوں کے مبلغین کے اوصاف میں بھی فرق ہوناچاہیے- اس کی وجہ یہ ہے کہ مردم شماری ودیگر فلاحی وسماجی تنظیموں کی سروے رپورٹس سے عیاں ہوتا ہے کہ شہری ودیہاتی علاقوں کے باشندوں میں رہن سہن کے ساتھ ساتھ بنیادی تعلیم واعلی تعلیم میں نمایاں فرق ہے - شہروں میںتعلیم یافتہ لوگ زیادہ ہیں - اور قرآن کریم کی نظر میں تعلیم یافتہ وغیر تعلیم یافتہ افراد دونوں برابر نہیں ہیں- اللہ فرماتاہے:’’ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ  اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبٰبِ‘‘ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان نصیحت تو وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں [سورئہ زمر:۹، ترجمہ کنز الایمان]غیر تعلیم یافتہ لوگوں سے حجت بازی کرنے سے قرآن کریم نے منع فرمایا ہے ، ان سے انداز میں بات چیت کرنے کی تلقین کی ہے کہ ان کے سادہ دلوں کو کسی طرح کی تکلیف نہ ہونے پائے- اللہ فرماتاہے:’’اِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ‘‘اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس سلام- [سورئہ فرقان:۶۳، ترجمہ کنز الایمان]لیکن قرآن کریم جب تعلیم یافتہ افرادمثلاعلمائے یہود ونصاری کی بات کرتاہے تو ’’آیات‘ ‘،بینات‘‘اور’’برھان‘‘ کی بات کرتاہے-
یہ بات بھی مسلم ہے کہ عصری تعلیم یافتہ افراد کے افکار وخیالات یکساں نہیں ہوتے ، تاریخ اورجغرافیہ میں مہارت رکھنے والے افراد سائنس اور انجینئرنگ میں مہارت رکھنے والے افراد کے خیالات یکساں نہیںہوسکتے ، ہر ایک علم کے حامل افراد کے سوچنے سمجھنے کا معیار جداگانہ ہوتاہے ، اس لیے ان حضرات میں دعوت وتبلیغ کا کام تھوڑا دشوار ہے- مگر مواقع بھی یہی پر زیادہ ہیں کہ ان افراد کے اندر سنجیدگی ومتانت زیادہ ہوتی ہے ان کو سمجھانا بہت حد تک آسان ہوتاہے-
ایسے اشخاص تک رسائی حاصل کرنے کے بعد داعی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ پہلے مدعو شخص کی نفسیات کو پرکھنے کی کوشش کرے پھر اسکے فن اور موضوع کے موافق گفتگو کا آغاز کرے - اگر مدعوشخص علم طب سے دلچسپی رکھتاہے تو جسم کی تخلیق ، اعضاوجوارح کی خصوصیات اور ان کے اندر اللہ عزوجل کی رکھی ہوئی ہزاروں صلاحیتیوں میں سے کسی ایک کااس انداز میں ذکر کرے کہ مدعوڈاکٹر وطبیب متأثر نہیں تو کم از کم خوش ضرورہوجائے - اسی طرح اگر مدعو شخص آرٹ کا ماہر ہے-تو اس کے سامنے کائنات کی رنگا رونہال، خوب صورتی وجمال مختلف النوع پرندوں ، جانوروں کیڑے مکوڑوں اور انکی تخلیق میں خالق کائنات کے بے انتہاکمال کا ذکر کرکے مدعو آرٹسٹ کو متأثر کیا جاسکتاہے - اور اپنی دعوت اس کے سامنے بحسن وخوبی پیش کی جاسکتی ہے-
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز
کبوتر باکبوتر باز باباز
عصری تعلیم یافتہ مدعو شخص کر اگر مسلمان ہے تو داعی کو بہت حد تک پیغام رسانی میں آسانی ہوجاتی ہے ورنہ بڑی محنت وکاوش کرنی پڑتی ہے- داعی اسلام اگر ہمت سے کام لے اور پیغام اسلام کو منطقی انداز اور دلائل کے ساتھ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے پیش کرنے میں کامیاب ہوجائے تو امید ہے کہ اسکی محنت وکاوش رنگ لائے گی - کیوںکہ دنیاوی تعلیم یافتہ طبقہ جہاں مواد اور انداز جدید تقاضوں کے موافق دیکھتے ہیں تو اسکی طرف جلد مائل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں-اللہ تعالی فرماتاہے:’’اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجٰدِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ‘‘اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤپکّی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو[سورئہ نحل:۱۲۵، ترجمہ کنز الایمان]
مختصراً یہ ہے کہ تعلیم یافتہ وشہری تہذیب کے حامل افراد میں دعوت کے لیے طلبہ کو بنیادی علم دین، اخلاص وایثار، صبر وتحمل، اعلی ظرفی وخوش مزاجی، بحث وتکرار وخودنمائی سے اجتناب،مخاطب کی دلجوئی وحوصلہ افزائی اور ذاتی روابط وملنساری کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے-خصوصا جدید ذرائع ووسائل کا استعمال، مخاطب کی نفسیات اور دلچسپیوں سے واقفیت، اسلام کی آفاقیت اور جامعیت کا تصور ، دوستانہ وپاکیزہ ماحول سازی اور اپنے پیغام کی حقانیت کا پر غیر متزلزل یقین وغیرہ کے ہتھیاروں سے طلبہ کو لیس کرنے کی ضرورت ہے-
سوال نامے میں نصاب سے متعلق جن باتوں پر اظہار خیال کرنے کے لیے کہاگیاہے- راقم الحروف اس سلسلے اپنے خیالات کو خیال ہی میں رکھنا مناسب خیال کرتاہے -

No comments:

Post a Comment